جدید ترکیہ : اسلامی اخوت اور طاقت کا سرچشمہ

   

چلوتو دنیا پناہ مانگے ، رکو تو چومے قدم زمانہ

ڈاکٹر حسن الدین صدیقی
ترکی جسے کسی زمانے میں یوروپ کا ’’ مرد بیمار ‘‘ کہا جاتا تھا ، اب ایک عظیم طاقت بن کر اُبھرا ہے اور اب اُسی ترکی کو یوروپی ممالک کے فوجی اتحاد ناٹو (NATO) کا سرخیل اور سب سے زیادہ طاقتور حلیف مانا جاتاہے، چند جوہری طاقتوں کو چھوڑ کر 1920 میں کمال اتاترک کے ہاتھوں انگریزوں کی شکست فاش نے اس کی کایا ہی پلٹ دی اور پوری قوم ایک نئے ولولے کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے زندہ قوموں میں اپنی ایک منفرد شناخت بنالی ہے ۔ ترک تاز ، ترکی بہ ترکی ، Young Turks جیسے الفاظ اسی جوش و جذبے کے عکاس اور اسی بہادرانہ روش کے ضرب الامثال ہیں ۔ ویسے کلاسیکل فارسی ادب و شاعری میں ترکی کے ذکر کے ساتھ بے شمار علامتیں ، تمثیلات و تلمیحات کا ایک دفتر کُھل جاتا ہے جو زبان زد خاص و عام ہیں ۔ اب جبکہ جدید ترکی جسے ترکیہ کہا جانے لگاہے اپنے قیام کے ایکسو سالہ سالگرہ منانے جارہا ہے ۔ 28 مئی 2023 ء کے صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردگان کی دوبارہ کامیابی ایک نئے خوش آئند دور کی ضامن ہے ۔ اردگان فی زمانہ مشرق و مغرب کے درمیان جاری کشمکش میں ایک مضبوط ثالث اور امن بردار کی حیثیت میں دیکھے جارہے ہیں ۔ ساتھ ہی مشرق وسطی اور بعض افریقی اسلامی ممالک کے استحکام میں اُن کا معاون کردار بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیا جارہا ہے ۔ یہاں اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ترکیہ میں گزشتہ بیس برسوں میں اُن کی مظبوط قیادت اور راسخ العقیدگی اُن کی عوامی مقبولیت کی مظہر ہے جو کہ ملک کی ہمہ جہتی ترقی کی سمت ایک بڑا قدم ہے ۔ ویسے بھی جدید ترکیہ اب ایک تیز رفتار معیشت کا نام ہے ۔ ترکی اور ہندوستان کے قریبی تعلقات کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے جسے قرون وسطی سے آج تک جڑے دو بڑی تہذیبوں کے باہم دگر پروان چڑھنے کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے اور جسے ہم ہندوستانیت کا نام دیتے چلے آرہے ۔ ترکوں نے اپنے دور حکمرانی میں بالخصوص سلطان شمس الدین التمش اور قطب الدین ایبک نے یہاں بڑی ثقافتی یادگاریں چھوڑی ہیں جو اب ہمارا قیمتی قومی اثاثہ ہیں ۔ دہلی کا قطب مینار جس کی ایک نادر مثال ہے ۔
ہاں ! یہ بات بالخصوص نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ہندوستان میں عام بولی سمجھی جانے والی اور ہندوستان ہی میں پروان چڑھی رابطہ کی زبان ، اردو ہے جس کا نام خود ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہی لشکری زبان کے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر ان دو ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے ۔ یاد رہے کہ راقم الحروف جامعہ عثمانیہ کے آخریں دور اردو میں (1949-50) ترکی زبان کا طالب علم رہا ۔ اُن دنوں ترکی زبان کے پروفیسر ایک ترک نژاد المامون ارزنجانی ہوا کرتے تھے ۔ ترکیہ سے میرا تعلق صرف ترکی زبان کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ گہرا اور ناقابل فراموش اس سرزمین سے ہے جس نے مجھے میری مسلمانی کا سرٹیفیکٹ دیا جو میرے حج ویزے کیلئے ناگزیر تھا اور جو میرے کمیونسٹ ملکوں میں قیام کے دوران کسی طرح ممکن نہ تھا ۔ یہہ سنہ 1973 ء کی بات ہے ۔ نصف صدی قبل شہرہ آفاق شہر استنبول جسے Pearl of Europe بھی کہا جاتا ہے ، کو جس طرح میں نے دیکھا اُسے صفحہ قرطاس پر لکھ بھیجا تھا کہ ’’ یہ محض مٹی اور چونے کی یادگاریں نہیں ہیں بلکہ اس سرزمین پر اللہ کا نام لینے والوں کی نشانیاں ہیں ‘‘ اور یہی کچھ اپنے سفر ترکی کی داستان جب میں نے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو کہہ سنائی تو ان کے رفیق اور دست راست مولانا معین اللہ نے جو شریک مجلس تھے فوراً ہی یوں اٹھے کہ ’’ ڈاکٹر صاحب ! آپ نے آج ہم کو بہت خوش کردیا ‘‘ پھر اس کی دوسرے ہی سال حضرت مولانا نے رابطہ عالمی اسلامی کا وفد لیکر ترکی ( ترکیہ ) کے دورہ پر روانہ ہوئے ۔ یادش بخیر ۔