جرمنی اور اسرائیل کی دوستی برقرار رہے گی، جرمن صدر

   

Ferty9 Clinic

برلن۔ جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائرنے اسرائیل کے اپنے تین روزہ سرکاری دورے کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے برسوں کے سیاسی جمود کے بعد ایک ’’نئے آغاز” کے لیے یہودی مملکت کی تعریف کی۔ پچھلے دو برسوں کے دوران چار انتخابات کے باوجود اسرائیل ایک مستحکم حکومت کے قیام میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا اور گزشتہ ماہ 8 سیاسی جماعتوں پرمشتمل ایک اتحادی حکومت قائم ہوسکی۔ جس کے بعد بارہ برس تک اقتدار میں رہنے کے بعد سابق وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ جرمن صدراشٹائن مائرکا کہنا تھا، بلاشبہ 8 جماعتوں پر مشتمل حکومت کے ذریعہ ملک کا نظم و نسق سنبھالنا آسان کام نہیں ہے اور وہ بھی ایک ایسے ملک میں جسے بہت سارے مسائل موجود ہیں۔ اسرائیل سیاسی، مذہبی اور ثقافتی تقسیم سمیت متعدد مسائل سے دوچار ہے۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے درمیان رسہ کشی چلتی رہتی ہے، مذہبی اور سیکولر گروپوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں اور یہودیوں اور عربوں کے درمیان نسلی کشیدگی اکثر تشدد کوبھڑکا دینے کا سبب بن جاتی ہے۔ اتحادی حکومت کے قیام کے باوجود اس بات پر اب بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے کہ آیا اتحاد میں شامل مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکیں گی؟ جرمن صدر اشٹائن مائر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد ان کا تاثر ہے کہ اتحادی حکومت حکمرانی کے روزمرہ کے کاموں کے تئیں ’’پورے جذبے” اور’’لگن” کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حوالے سے پرامید ہے۔