پروین کمال
آج کل یوروپی خواتین میں بہت ساری تبدیلیاں لائی جارہی ہیں کیونکہ اس وقت ساری دنیا میں افراط و تفریط پھیلی ہوتی ہے ۔ خواہ وہ کویڈ کی وجہ سے ہو یا روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث ، لیکن حالات پر قابو پانا مشکل ہورہا ہے ۔ چنانچہ یوروپ بھی ان حالات سے متاثر ہے ۔ اسی لئے پرانے قوانین تبدیل کر کے نئے سرے سے اس کی تشکیل کی جارہی ہے ۔ اس وقت یوروپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی واالے ملک جرمنی میں ماہر کارکنوں کی کمی بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پرانے قوانین بدل کر نئے قوانین کچھ جامع اصلاحات کے ساتھ منظر عام پر لائے جارہے ہیں جو ملک کی بہبود کیلئے ضروری ہے چنانچہ طویل مذاکرات کے بعد جرمنی کی سیاسی جماعتیں اس منصوبے پر متفق ہوگئی ہیں کہ غیر ملکی کارکن کو جرمنی میں داخل ہونے کا موقع دیا جائے ضروری نہیں کہ یہ کارکن یوروپ سے ہی تعلق رکھتے ہوں بلکہ دسرے براعظموں کے کارکن بھی اب بآسانی جرمنی پہنچ سکتے ہیں اگر وہ ان شرائط پر پورے اترتے ہوں ۔ اول تو عمر (35) برس سے زائد نا ہو پھر یہ بھی کہ تعلیمی صداقت نامے جو کم سے کم دو سال قبل حاصل کئے گئے ہوں اور پیشہ وارانہ تجربہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ جرمن زبان سے واقفیت بھی ضروری ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ جرمن سماجی نظام سے مطابقت رکھنا ضروری ہے تاکہ ملک کی فضاء صحت مند رہے ۔ کوئی تفرق نارہے ، کچھ اس طرح کا ماحول جرمن قوم چاہتی ہے ۔ آئندہ اس ضمن میں ایک نیا قانون ’’ پوائنٹ سسٹم ‘‘ کے نام سے قائم کیا جائیگا جس کے تحت آنے والے کارکنوں کو ان کی پیشہ وارانہ تعلیم اور کام کے تجربے کی بنیاد پر اضافہ پوائنٹس دیئے جائینگے اور اس کے ساتھ ایک ایسا کارڈ بھی کارکنوں کیلئے بنوایا جائیگا جس کی مدد سے ملازمت حاصل کرنا بہت آسان ہوجائیگا ۔ اس سلسلے میں ملازمت کے بہت سارے مواقع ہیں ۔ خاص طور پر ( آئی ٹی ) کے شعبے میں کارکنوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ میڈیکل شعبے میں بھی مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے کارکن مطلوب ہیں اور بچوں کی نگہداشت کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ افراد کی ضرورت بتائی جارہی ہے ۔ قابل پیشہ وارانہ افراد جو ان شرائط پر پورے اُترسکتے ہیں ان کیلئے مواقع بہت زیادہ ہیں اگرچیکہ جنگ کے بعد جرمنی نے بہت زیادہ ترقی کرلی ۔ دنیا کے نقشے پر وہ دوبارہ اپنی آن اور شان کے ساتھ اُبھرکر سامنے آیا ہے لیکن آبادی کا تناسب اتنا بڑھ نہیں سکا جتنا بڑھنا چاہئے تھا لہذا افرادی قوت کی کمی بہت سارے مسائل کو جنم دے رہی ہے جس کی ظاہری وجہ وہ دوسری عظیم جنگ تھی جس میں جرمن نوجوانوں کی کثیر تعداد ماری گئی اور اس خونریز جنگ کا ذمہ دار جرمنی کا چانسلر اڈولف ہٹلر تھا جس کے خونی منصوبے اور اقتدار کی ہوس نے جرمنی کو کھنڈروں میں تبدیل کردیا ۔ دراصل وہ پورے یوروپ کو اپنا کر کے اس پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا تھا اس کیلئے اس نے عوام کو اپنے قابو میں کرلیا ۔ ملک و قوم کی بھلائی کیلئے وہ سب کچھ کرنے کیلئے تیار تھا ۔ جب وہ تقریر کرتا تو سارا مجمع بالکل ساکت حالت میں گھنٹوں کھڑا اس کی تقریر سنتا تھا اس کا انداز بیاں بھی اتنا دلچسپ تھا کہ لوگ مسحور ہوجاتے تھے ۔ خاص طور پر وہ عوام کو یہ کہکر یقین دلاتا تھا کہ جرمن قوم کی تقدیریں میری ہاتھوں کی لکیروں میں ہیں ۔ عوام اس کی باتوں پر یقین کرنے اور اسے اپنا مسیحا سمجھنے لگے ۔ اسی بھروسے اور امید میں انہوں نے ہٹلر اور اس کی قائم کی ہوئی نازی پارٹی کے حق میں ووٹ دیئے ۔ نازی پارٹی کی تھوڑی سی وضاحت یہاں ضروری ہے ۔ نازی ازم دراصل فسطائیت کی دوسری شکل ہے جس میں لبرل جمہوریت اور پارلیمانی نظام کیلئے نفرت ہے ۔ سفید فام کی بالادستی ، نسلی درجہ بندی ، ان کے اصول تھے ۔ نازیوں کا مقصد تھا ۔ جرمن سرزمین پر صرف جرمن قوم رہے اور جرمنی کو وسیع کرنے کیلئے دسرے ملکوں کی زمینوں پر قبضہ کریں اور ایک اور قانون جو انتہا سے زیادہ نازیبا اور ہٹلر اور اس کی پارٹی کیلئے بدنما داغ تھا یہ کہ وہ ان انسانوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے جو کمتر نسل سے ہیں یعنی اس پارٹی کا یہ نعرہ تھا جرمن سب سے اونچی قوم ہے اور ہم کسی کمزور یا کمتر کو اپنے ملک میں جگہ نہیں دیں گے ۔ غرض آج بھی اس پارٹی کے کچھ افراد موجود ہیں جن کی آواز حکومت کی طرف سے دبا دی گئی ہے ۔ انہیں اُبھرنے کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ بہرکیف عوام کی بھرپور تائید کی وجہ سے ہٹلر نے شاندار کامیابی حاصل کی اور بحیثیت جرمنی کے چانسلر کے اس نے اپنا عہدہ سنبھالا اور اس کی اقتدار حاصل کرنے کی ہوس پوری ہوگئی ۔ اقتدار پر آنے کے بعد اس نے ایک خاص کام یہ کیا جو اس کے اچھے کارناموں میں لکھا جاسکتا ہے ۔ بڑی ہی دلچسپی اور انہماک سے اس نے وہ کام انجام دیا دراصل اس وقت اقتصادی بحران سے دنیا نیم جاں ہورہی تھی اور ظاہر ہے جرمنی کے حالات بھی ابتر ہوچکے تھے اس مشکل وقت میں انہیں کسی طاقتور سیاست داں کی ضرورت تھی جو ملک میں پھیلی معاشی بدحالی پر قابو پاسکے ۔ ہٹلر نے اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں ہی معاشی اصلاحات کر کے جرمنی کے معاشی نظام کو اتنا مستحکم کردیا کہ ناامید عوام یہ محسوس کرنے لگے کہ ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے اور اب ہمیں زمین پر جنت مل جائیگی اس کا یہ عمل عوام کی نظروں میں اتنا مقبول ہوا کہ وہ وطن سے وفاداری کرنے سے زیادہ اہمیت ہٹلر سے وفاداری دیتے تھے یہی وجہ تھی کہ جب اس نے جنگ کے ذریعہ پورے یوروپ پر قبضے کی اسکیم عوام کو بتائی تو وہ آمادہ ہوگئے ۔ 1939 میں جنگ شروع ہوئی اور 1945 میں اس کا اختتام ہوا ۔ چھ سالہ اس جنگ میں جرمن نوجوانوں کی بڑی تعداد کام آگئی اور اب ملک ٹوٹی عمارتوں کے ملبے اور بارود زدہ زمین لئے کھڑا تھا لیکن جرمنی کے حوصلے پست نہیں ہوئے اپنی محنت ، لگن اور حکمت عملی سے انہوں نے ملک کو دوبارہ ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں لاکھڑا کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ملک کبھی بارودی حملوں سے چور چور بھی ہوا تھا ۔ لیکن جنگ کے تھوڑے سے اثرات تو آج بھی باقی ہیں کہ آبادی کا گراف نیچے کی طرف جارہا ہے ۔ جنگ میں بے شمار نوجوانوں کی موت کی کمی آج تک پوری نہیں ہوسکی ۔ 78 سال قبل ہونے والی جنگ کے اثرات ابھی تک زائل نہیں ہوئے کیا جنگ زدہ ملک صدیوں تک جن کی اثرات کا شکار رہیں گے اور کیا افرادی قوت کی کمی ہمیشہ ملک کی معیشت پر چھائی رہیں گی ۔