برلن۔ 6 فروری (سیاست ڈاٹ کام) جرمنی میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وفاقی فوج میں شامل مسلمان افسروں اور سپاہیوں کے لیے آئمہ بھی بھرتی کیے جانا چاہییں۔ ’فیڈرل ڈیفنس‘ کہلانے والی وفاقی جرمن فوج میں مسلمان فوجیوں کی مجموعی تعداد قریب ڈیڑھ ہزار بنتی ہے۔اکثریتی طور پر مسیحی عقیدے کی حامل آبادی والے ملک جرمنی کی وفاقی فوج میں سپاہیوں کی زیادہ تر تعداد کا تعلق بھی مسیحیت سے ہے۔ لیکن جس طرح جرمنی میں مسیحیت کے بعد اسلام سب سے بڑا مذہب ہے، اسی طرح وفاقی فوج میں بھی مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ جرمن فوج کے مسیحی ارکان کی مذہبی اور روحانی رہنمائی کے لیے فیڈرل آرمی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں سے تعلق رکھنے والی کلیسائی شخصیات کی بھرتی تو کوئی نئی بات نہیں لیکن بہت سے مسلمانوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ وفاقی جرمن مسلح افواج کے مسلمان ارکان کے لیے کوئی امام موجود نہیں ہیں۔اس بارے میں برلن میں ملکی حکومت کا کہنا یہ ہے کہ وفاقی فوج میں آئمہ کی تقرری کے ساتھ مذہبی کیڈر میں توسیع سے قبل اس سلسلے میں بہت سے کلیدی سوالوں کے جوابات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
مراقشی نژاد مسلم خاتون بحری افسر
ناریمان رائنکے جرمن بحریہ کی ایک ایسی پیٹی آفیسر ہیں، جو مراقش سے ترک وطن کر کے آنے والے ایک مسلم گھرانے میں 1979ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے 2005ء میں جرمن مسلح افواج میں اپنا پیشہ ورانہ کیریئر شروع کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ افغانستان میں بھی فرائض انجام دے چکی ہیں۔
جرمن مسلم فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار
جرمنی سے باہر بہت سے حلقے یہ نہیں جانتے کہ جرمن مسلح افواج میں مجموعی طور پر مسلمان افسروں اور عام فوجیوں کی تعداد قریب ڈیڑھ ہزار بنتی ہے۔ ان فوجیوں کو اپنی روزمرہ کی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی معاملات میں مذہبی رہنمائی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔وفاقی جرمن وزارت دفاع کے مطابق فیڈرل آرمڈ فورسز میں مسلم ائمہ کی تقرری سے متعلق جرمن اسلام کانفرنس کے ساتھ مذاکرات اور مشاورت جاری ہیں۔ دوسری طرف جرمنی میں ’اسلام کانفرنس‘ نامی نیم سرکاری مذہبی پلیٹ فارم میں شامل مسلم تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کوئی عملی فیصلے کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔