محمد ریحان
امریکہ میں عہدۂ صدارت پر ڈونالڈ ٹرمپ کے فائز ہونے کے بعد سے اور خاص طور پر دنیا کے تقریباً 180 ملکوں پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جوابی TARIFF عائد کئے جانے کے ساتھ ہی نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی معیشت تباہی و بربادی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے۔ ٹرمپ نے جہاں چین کے بشمول اپنے حلیفوں اور حریف ممالک کی درآمدات پر جوابی محاصل عائد کئے ہیں‘ وہیں امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کے خلاف بھی کارروائی شروع کررکھی ہے، خاص طور پر امریکی حکومت اُن طلباء و طالبات کو چُن چُن کر نشانہ بنارہی ہے جنہوں نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا۔ موجودہ حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بین الاقومی طلبہ امریکہ میں طلبہ برادری کے ساتھ روا رکھے جارہے غیر مہذب سلوک کے بعد بھی امریکی تعلیمی اداروں کا رُخ کریں گے ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہوگا کہ امریکہ میں جو بین الاقوامی طلبہ ہیںتعداد کے لحاظ سے ان میں پہلے نمبر پر ہندوستانی طلبہ ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ تعلیمی سال 2023-24 میں امریکی تعلیمی اداروں نے زائد از 1.02 ملین بین الاقوامی طلبہ کا خیرمقدم کیا۔ حال ہی میں امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کا ایک بیان منظر عام پر آیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ کم از کم 300 بیرونی طلبہ کے اسٹوڈنٹ ویزے منسوخ کئے گئے ہیں۔ بین الاقوامی طلبہ میں 3 لاکھ ہندوستانی طلبہ ہیں اور وہاں ان کا مستقبل غیریقینی دکھائی دے رہا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ طلبہ کیلئے کام کی اجازت ختم کرنے کیلئے (OPT) پروگرام میں تبدیلی کئے جانے کے بعد ان ہندوستانی طلبہ کو اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد امریکہ چھوڑنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ’ دِی اِکنامک ٹائمز‘ کے مطابق OPT ان طلبہ کو امریکہ میں تین سال تک رہنے اور گریجویشن کے بعد وہاں ملازمت تلاش کرنے کی گنجائش فراہم کرتا تھا۔ آپ کو بتادیں کہ سائینس، ٹکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے طلبہ کو امریکہ چھوڑنے کا خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے کہا گیا کہ اس پیشرفت نے F-1 اور M-1 اسٹوڈنٹ ویزا ہولڈرز میں خوف کی لہر پیدا کردی ہے، یہ ایسے طلبہ ہیں جو ملازمتوں کیلئے درخواستیں دے رہے ہیں جو انہیں H1-B ور ورک ویزا حاصل کرنے کی راہ ہموار کرسکتی ہیں۔
بہرحال موجودہ حالات و قرائن سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی طلبہ اب امریکہ کی بجائے جرمنی کو ترجیح دیں گے کیونکہ جرمنی میں ایک تو باصلاحیت افرادی قوت کی قلت ہے دوسرے جرمنی کی آبادی ہندوستانی آبادی کی طرح جوان نہیں ہے، ایسے میں جرمن باشندوں کو ایسے نوجوان لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کی معیشت کے استحکام کو برقرار رکھیں۔ گذشتہ ماہ جرمنی کی پارلیمنٹ نے ریکارڈ توڑ مالیاتی پیشرفت کے معاملہ میں پروگرامس و پراجکٹس کو سبز جھنڈی دکھائی جس کے ذریعہ وہ نہ صرف اپنی فوج کو مزید طاقتور بنائے گی بلکہ اپنے انفرااسٹرکچر کو بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرے گی۔ حکومت جرمنی ماحولیات کے تحفظ کو بھی بہت زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ جرمنی کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ وہاں باصلاحیت اور مہارت کی حامل افرادی قوت بہت ضروری ہے۔ جرمنی میں ہندوستان کے نوجوان ٹیلنٹ کی شدید ضرورت ہے چاہے وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ہو یا کام ( ملازمتوں ) کیلئے سرزمینِ جرمنی میں ان کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ ماہرین کے خیال میں اگر ہندوستانی پیشہ ورانہ ماہرین اور طلبہ امریکہ کی بجائے جرمنی کو ترجیح دیتے ہیں تو مستقبل میں وہ نہ صرف یوروپ کی سب سے بڑی معیشت کی ترقی میں اس کے روشن مستقبل میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ اپنے ملک ہندوستان کی ترقی میں بھی بالواسطہ طور پر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
جہاں تک جرمنی میں تعلیم اور ملازمتوں کا سوال ہے جرمن لینگویج پر عبور رکھنے والوں کیلئے وہاں ترقی کے بہت زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں۔ ویسے بھی ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد ان کے عجیب و غریب فیصلوں نے سب سے زیادہ امریکہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اب حال یہ ہوگیا ہے کہ خود ٹرمپ کے حامی بھی ان سے ناراض ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے 180 سے زائد ملکوں پر جوابی TARIFF عائد کرتے ہوئے ٹرمپ نے خود اپنے ( امریکہ کے ) پیر پر کُلہاڑی مار لی ہے چنانچہ امریکہ کو6.6 کھرب ڈالرس کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ دنیا کی دولت مند ترین شخصیتوں بشمول ٹرمپ کے قریبی ساتھی ایلون مسک کو صرف 3 دن میں 172 ارب ڈالرس کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ آنے والے دنوں میں اس نقصان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستانی نوجوانوں کو انگریزی کی بجائے یا انگریزی کے ساتھ جرمن زبان بھی سیکھنی چاہیئے جس سے انہیں جرمنی منتقل ہونے اور وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پُرکشش تنخواہوں پر ملازمتیں کرنے کے مواقع دستیاب ہوں گے۔ ہندوستانی آئی ٹی ماہرین جرمنی میں سلیکان وادی کا احیاء بھی کرسکتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ جرمن شہریوں میں بالی ووڈ کے بادشاہ خان ( شاہ رخ خان ) بہت زیادہ مقبول ہیں۔