تیسری اور آخری قسط
رماکانت ریڈی
گزشتہ دو اتوار کے مضامین میں راقم الحروف نے بتایا تھا کہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل قدم اُٹھاتے ہوئے مرکزی حکومت نے 24 اگست 2019ء کو احکامات جاری کئے تھے کہ پی ونود کمار، انی ریڈی ابھیشیک ریڈی اور کے لکشمن ایڈوکیٹ تلنگانہ ہائیکورٹ کے ججس مقرر کئے جائے چنانچہ مرکزی وزارت قانون و انصاف نے اس ضمن میں ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ صدرجمہوریہ نے ان تینوں وکلاء کے بحیثیت تلنگانہ ہائیکورٹ ججس کے تقررات کو منظوری دی ہے اور سپریم کورٹ کالیجیم نے بار کوٹہ کے تحت مذکورہ وکلاء کے بحیثیت ججس تقررات کی سفارش کی ہے اور اس سفارش یا تجویز کو صدرجمہوریہ کی منظوری کی خاطر مرکزی حکومت کیلئے روانہ کردیا۔ راقم الحروف نے آپ کو یہ بھی بتایا تھا کہ جسٹس ونود کمار، جسٹس لکشمن اور جسٹس اے ابھیشیک ریڈی کے تقررات معزز ہائیکورٹ اور معزز سپریم کورٹ کالیجیم کے بہتر تقررات ہوسکتے ہیں۔ پچھلے مضامین میں راقم نے جسٹس ونود کمار کے مختلف مقدمات کے حوالے دیئے اور بتایا تھا کہ جسٹس ونود کمار کے مقدمات میں سے ایک مقدمہ رامکی انفراسٹرکچر لمیٹیڈ بمقابلہ تلنگانہ اسٹیٹ رہا۔ اس مقدمہ میں یہ مسئلہ اُٹھایا گیا کہ آیا دستور ہند کی دفعہ 226 کے تحت دائرۂ اختیار استعمال کرتے ہوئے یہ ہدایت دی جاسکتی ہے کہ درخواست گزار کی شکایت کی بنیاد پر ایک ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی جاسکتی ہے۔ جسٹس کمار نے سدھیر بھاسکر راؤ کامبے بمقابلہ ہیمنت یشونت دھاگے و دیگر فریقین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کسی شخص کو یہ شکایت ہے کہ پولیس نے اس کا ایف آئی آر درج نہیں کیا ہے یا اندراج کرکے مناسب تحقیقات نہیں کی جارہی ہے تب شکایت کنندہ شخص کیلئے دستور کی دفعہ 226 کے تحت قانونی چارہ جوئی کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع ہونا نہیں ہے بلکہ دفعہ 156(3) ضابطہ فوجداری سی آر پی سی متعلقہ مجسٹریٹ سے رجوع ہونا ہے۔ اگر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156/3 کے تحت ایسی درخواست کی جاتی ہے اور بادی النظر میں مجسٹریٹ مطمئن ہو تو وہ ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔
بحیثیت ایڈوکیٹ ایڈمیشن کیلئے قانون کی ڈگری کی مسلمہ حیثیت
درخواست گزار کا یہ دعویٰ ہے کہ امیدوار کیلئے تین سالہ ریگولر کورس کے ذریعہ کوالیفائنگ (اہلیت) ڈگری امتحان کے حامل ہونے کی شرط جیسا کہ لاسیٹ۔2019ء کے انعقاد کے بعد متعارف کروایا گیا ہے، بے بنیاد ہے اور مسترد کئے جانے کے قابل ہے۔ تحت حصہ چہارم BCI قواعد کا لائق نفاذ ہونا کہاں تک اس کا تعلق قانونی تعلیم سے ہے، وہ اب لازمی نہیں رہا۔ اس فیصلے کا غور طلب اور تحریر کے قابل نکتہ ہے۔ بار کونسل آف انڈیا کی جانب سے قانون کی ڈگری کو تسلیم کرنے کے معاملے کو قانونی تعلیم کے معیار کو مرتب کرنے کے عمل سے اور بحیثیت ایک وکیل ایڈمیشن (تسلیم کرنے کیلئے قانون کی ڈگری کو تسلیم کرنے سے منسوب کیا گیا)
جہاں تک عزت مآب جسٹس ابھیشیک ریڈی کا تعلق ہے، ان کے کئی قابل تعریف فیصلے ہیں جن پر قانونی برادری میں جسٹس ابھیشیک ریڈی کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے لئے بحث کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر کیس آئی این ایگرویٹ پروڈکٹس ضلع نلگنڈہ (جس کی نمائندگی مینیجنگ پارٹنر ایڈولو ایلیا یادو و نیز ایک اور فریق بمقابلہ تلنگانہ اسٹیٹ ملاحظہ کیجئے جس میں ضابطہ فوجداری کے تحت 133، 138 اور 254 کے تحت ایک معاملہ سے نمٹا گیا ہے۔ یہ معاملہ سی آر پی سی (ضابطہ فوجداری کی دفعہ 133 کے طریقہ کار پر عمل کئے بغیر مذکورہ فیاکٹری کو بند کرنے سے متعلق ہے۔ یہ طئے پایا کہ یا تو کوئی ضلع مجسٹریٹ یا کوئی سب ڈیویژنل مجسٹریٹ یا کوئی ایگزیکٹیو مجسٹریٹ ایسا مشروط حکم جاری کرسکتا ہے تاکہ ایک اصل حکم جاری کرنے سے قبل رکاوٹ یا شور شرابہ کو دور کیا جائے۔ مجسٹریٹ کیلئے ضروری ہے کہ وہ شہادتی بیان ریکارڈ کرے جیسا کہ سمنس کیس میں کیا جاتا ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 133 کے تحت کوئی حکم جاری کرنے سے قبل سب ڈیویژنل مجسٹریٹ کیلئے ضروری ہے کہ وہ دفعہ 138 کے تحت اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت پڑھا جائے۔(مسلمہ طریقہ کار پر عمل کرے) جسٹس ابھیشک ریڈی نے اس کیس میں جس قابل تحریری نکتہ کی نشاندہی کی ہے وہ یہ ہے کہ ایسا کوئی حکم جاری کرنے سے قبل مجسٹریٹ کیلئے ضروری ہے کہ وہ شہادتی بیان یا بیانات ریکارڈ کرے جیسا کہ کسی سمنس کیس میں کیا جاتا ہے۔
وی چندر شیکھر ریڈی بمقابلہ جی روین کمار مقدمہ میں جسٹس ریڈی کے سامنے جو مسائل اُٹھے ہیں، وہ یہ تھے۔ (1) کیا کوئی ایسا شخص جو عدالت کی جاری کردہ ہدایت کا پابند نہیں ہے، اگر وہ کسی ایسے شخص کی طرف سے جو عدالت کی ہدایت کا پابند ہے، ایسی ہدایت کی راست خلاف ورزی کرنے میں اس کو مدد دے، تو کیا اس شخص کو اس کے طرز عمل کے سبب تحقیر عدالت کا مرتکب یا مجرم قرار دیا جاسکتا ہے؟ اور (2) ایسے شخص کے واجب السزا ہونے کی حد کیا ہے۔ جسٹس ریڈی نے ہائیکورٹ کے اختیار پر بحث کرتے ہوئے کہا ’’یہ بات ظاہر ہے کہ بحیثیت ایک عدالت ریکارڈ ہائیکورٹ کو بلاشبہ اس کی تحقیر پر سزا دینے کا اختیار حاصل ہے، جیسا کہ دستور کی دفعہ 215 میں درج ہے۔ ہائیکورٹ کو اپنے جبلی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بحیثیت کورٹ آف ریکارڈ دادرسی کی مدد کیلئے احکامات جاری کرنے کے کامل اختیارات حاصل ہے۔ تحت دفعہ 23 (جو دستور کی دفعہ 215 کے ساتھ پڑھا جائے) میں اس عمل کی صراحت ہوتی ہے، جس کی صراحت دستور کی دفعہ 215 میں کی گئی ہے۔
حکومت کو ریاستی مقننہ کے مسلم ارکان میں سے ایک کو (دو ارکان سے زیادہ نہیں) وقف بورڈ کا رکن منتخب کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ پارلیمنٹ میں اپنی دانست میں اس گنجائش (دفعہ) کو ارکان اسمبلی تک محدود رکھا ہے اور اس کو ارکان کونسل تک وسعت نہیں دی ہے، کیونکہ مدعی علیہ (اس کیس میں) رکن قانون ساز کونسل تھا، اگر اس کی میعاد ختم بھی ہوجائے تو یہ نہیں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس نے وقف بورڈ کی رکنیت ترک کردی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ متعلقہ ایکٹ یعنی قانون کی دفعہ 15 کی اصطلاحوں میں وہ بورڈ کے رکن کی حیثیت سے اپنی میعاد کے اختتام تک خدمات انجام دیتا رہے گا۔ جسٹس ریڈی کے اس فیصلے کے قابل غور (قابل تحریر) نکات یہ ہیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ ریاستی حکومت کو وقف بورڈ کیلئے ریاستی مقننہ سے ایک (دو سے زیادہ نہیں) مسلم ارکان کو منتخب کرنے کا اختیار ہے۔ پارلیمنٹ نے اس گنجائش (دفعہ) کو قانون ساز اسمبلی کے ارکان تک محدود رکھا ہے، اور اس گنجائش کو ارکان قانون ساز کونسل تک وسعت دی ہے۔
ٹی جیون ریڈی بمقابلہ ریاست ِ تلنگانہ کیس کے اہم فیصلے میں مفادِ عامہ کیس (پی آئی ایل) کی نوعیت کے اعتبار سے رٹ درخواستوں کے دو مختلف سیٹس ہائیکورٹ میں داخل کئے گئے تھے۔ ابتداء میں 2016ء میں تین رٹ درخواستیں نمبرات 136، 142، 145 داخل کی گئی تھیں جن کے ذریعہ کابینہ کے فیصلے مؤرخہ 31 جنوری 2015ء کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے ذریعہ مجلس وزراء نے ایک ہی کیمپس جہاں دفاتر معتمدین کی عمارت موجود تھی، ایک نئی سیکریٹریٹ کی عمارت یا کامپلیکس تیار کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ جسٹس ریڈی نے اس بارے میں تمام الجھنوں کو دور کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کی ذمہ داری مشترکہ دارالحکومت حیدرآباد کے مکینوں کا تحفظ کرنا ہے۔(1) یوم تقرر سے مشترکہ دارالحکومت کے انتظام کے مقصد سے ایسے علاقہ کے تمام رہنے والوں کی زندگی کی سلامتی آزادی اور املاک کی سلامتی کی خصوصی ذمہ داری گورنر پر رہے گی۔ (2) گورنر کی ذمہ داری بالخصوص لا اینڈ آرڈر، داخلی سلامتی اور اہم تنصیبات کی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ مشترکہ دارالحکومت کے علاقہ میں سرکاری عمارتوں کے انتظام اور حوالگی تک وسعت کے اختیار کی حامل رہے گی۔ (3) فرائض کی ادائیگی میں ریاستی گورنر، ریاست تلنگانہ کی مجلس وزراء سے مشاورت کے بعد اپنے انفرادی فیصلے کو روبہ عمل لائے گا۔ سرکاری عمارت کی حوالگی سے نمٹنے کے معاملے میں فاضل جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جہاں تک حیدرآباد دونوں ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مشترکہ دارالحکومت کی حیثیت سے برقرار ہے، مذکورہ مشترکہ ذمہ داری مناسب ہوگی، تاہم موجودہ حالات میں حیدرآباد مشترکہ دارالحکومت نہیں رہا۔ سرکاری عمارت کی حوالگی کا سوال ہی باقی نہیں رہے گا، اس لئے یہ دعویٰ کرنا غیرمنصفانہ ہے کہ کسی عمارت کی حوالگی کا اختیار محض گورنر کو حاصل ہے اور کابینہ استعمال نہیں کرسکتی۔
مقدمہ آر اشویتا بمقابلہ نریندر پرساد جیسوال و دیگر فریقین
گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن ایکٹ 1955 کی دفعہ 495A کے تحت ایک معاملے سے نمٹتے ہوئے جسٹس ریڈی نے کہا کہ جب متعلقہ فریق نے ایک بار ایک وضاحت داخل کردی ہے تو جی ایچ ایم سی انہدام کا حکم جاری کرنے سے قبل اس وضاحت یا نمائندگی پر غور کرنے کی قانونی طور پر پابند ہے۔ مذکورہ دفعہ کسی منظورہ پلان یا نقشہ کے بغیر تعمیر کردہ عمارت کو باقاعدہ بنانے سے متعلق ہے۔ تین معزز جج صاحبان کے قابل تعریف مذکورہ بالا فیصلوں پر غور کے بعد ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں کالجیم سسٹم اور اس کے تقرر کی کارروائی کے تقدس کے تحفظ کی اصطلاحوں میں متعدد بہترین ججوں میں سے بہترین کا انتخاب کیا ہے۔ کالجیم سسٹم نے ہمیں یہ تین قابل احترام و قابل قدر ججس عطا کئے ہیں جنہوں نے اپنی وکالت کے دوران نہ صرف اپنی قابلیت اور اپنی ہمت و حوصلے کو منوایا ہے بلکہ عدلیہ برادری کی اسی معقولیت و جانفشانی کے ساتھ رہنمائی کی ہے، جس کے سبب ایک بڑی خدمت انجام دی گئی ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ جج صاحبان دانشمندی اور عزم و حوصلے کے ساتھ عدلیہ کی حرکیات کی صورتگری کریں گے۔ ان جج صاحبان نے جس طریقہ سے فیصلے صادر کئے ہیں، وہ ان کے عملی تناظر اور دوراندیشی کا نتیجہ ہیں جو انہوں نے اپنی قانونی پریکٹس کے برسوں کے دوران حاصل کیا۔
(ختم شد)