یوم جمہوریہ … دستور خطرہ میں
اتراکھنڈ … یکساں سیول کوڈ کا تجربہ
رشیدالدین
یوم جمہوریہ کے موقع پر ہر سال 26 جنوری کو دستور ہند کے نفاذ کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ان کے ساتھیوں کو خراج پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے ایک جامع دستور کے ذریعہ ہر شہری کو حقوق فراہم کئے ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کو چلانے کیلئے دستور تیار کیا گیا اور 26 جنوری 1950 کو نفاذ کا آغاز ہوا۔ دستور کے تحت ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔ یوم جمہوریہ کی خصوصیت یہ ہے کہ دستور کے نفاذ کو 75 سال مکمل ہوگئے۔ اگرچہ ہر سال یوم جمہوریہ کا جشن روایتی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ عوام جشن سے زیادہ اس بات کو لے کر فکرمند ہیں کہ دستور کو کیسے بچایا جائے۔ گزشتہ 75 برسوں میں پہلی مرتبہ دستور ہند کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ جس دستور نے جمہوریت ، سیکولرازم اور وفاقی نظام کو مستحکم کیا، آج وہی غیر محفوظ دکھائی دے رہا ہے ۔ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی زیر قیادت مخلوط حکومت نے دستور اور قانون کی بالادستی کا حلف لیا لیکن درپردہ سازش کی جارہی ہے کہ اسے تبدیل کردیا جائے۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے نہ صرف دستور ہند بلکہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو نشانہ بناتے ہوئے اپنے عزائم کو ظاہر کردیا ہے۔ جس دستور نے 75 سال تک ملک کے اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھا، مذہبی رواداری اور پرامن ماحول کی ضمانت دی، آج وہی دستور بی جے پی اور سنگھ پر یوار کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔ ملک میں ہندوتوا اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے غلبہ کے نتیجہ میں دستور ہند نشانہ پر ہے۔ دستور سے سیکولر اور جمہوریت کے الفاظ حذف کرنے کی مانگ کی جارہی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ دستور میں سیکولر کی جگہ ہندو راشٹر کا لفظ شامل کیا جائے۔ مرکز میں 2014 میں نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ پر فائزہونے کے بعد سے ہندوتوا عناصر بے لگام ہوچکے ہیں۔ ابتداء میں مسلمانوں کو دستوری حقوق سے محروم کرنے کیلئے مذہبی آزادی سلب کرنے کی سازش کی گئی۔ اسلام اور شریعت کے خلاف قوانین تیار کئے گئے تاکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کی شناخت کو ختم کرتے ہوئے انہیں دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلایا جائے۔ مسلم اقلیت کو احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہوئے مذہبی آزادی ، یکساں ترقی اور پھر ہندوستانی شہریت کو ختم کرنا بنیادی مقصد ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں مرکز اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مظالم ڈھائے گئے ۔ نفرت انگیز مہم کے ذریعہ حملوں پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ عبادت پر پابندی کے مقصد سے اذان اور کھلے عام نماز پر روک لگائی گئی۔ اب تو مساجد اور درگاہوں کو مندر ہونے کی دعویداری پیش کی جانے لگی۔ ان تمام سرگرمیوں پر نریندر مودی کی خاموشی دراصل نیم رضامندی کے مترادف ہے ۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار دستور میں تبدیلی کی راہ میں مسلمانوں کو اہم رکاوٹ تصور کرتا ہے۔ اسی لئے مخالف مسلم ایجنڈہ ہر سطح پر عروج پر ہے۔ ہندو راشٹر کے خواب کی تکمیل کے لئے دستور کے خلاف مہم کا آغاز کیا گیا ۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی توہین پر مسلمانوں نے احتجاج کیا لیکن حیرت ہے کہ دلت قوم بے حسی کا شکار ہے جبکہ امبیڈکر کا تعلق دلت طبقہ سے ہے۔ امبیڈکر اور دستور کی توہین پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ آر ایس ایس سربراہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ملک کو آزادی 15 اگست 1947 کو نہیں ملی بلکہ رام مندر کی تعمیر کے بعد ملک آزاد ہوا ہے ۔ رام مندر کا افتتاح 22 جنوری 2024 کو ہوا اور موہن بھاگوت کی مانیں تو پھر ہندوستان کو آزاد ہوئے صرف ایک سال ہوا ہے۔ موہن بھاگوت کا استدلال درست ہے تو پھر مودی حکومت کو 75 ویں یوم جمہوریہ اور آزادی کی 78 سالہ تقاریب منانے سے روک دیا جائے۔ بھاگوت اور ان کے ہمنوا کیا ایک سال قبل تک غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے؟ کسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ملک کو حقیقی آزادی ملی۔ الغرض مودی بھگت اور سنگھ پریوار کے ایجنٹ آزادی کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ عوام کو فی الوقت نریندر مودی اور بی جے پی سے ملک کو آزادی کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کو حقیقی آزادی اسی وقت مل سکتی ہے ، جب ملک فرقہ پرستوں کے چنگل سے آزاد ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جن کا تعلق جدوجہد آزادی سے نہ ہو اور دستور کی تیاری میں کوئی رول نہیں تو پھر انہیں آزادی کی قدر و قیمت کا اندازہ کیسے ہوگا۔ آزادی کے لئے جان قربان کرنے والے اس کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن جن لوگوں نے انگریزوں کیلئے کام کیا وہ مجاہد آزادی کی توہین نہیں تو کیا کریں گے۔ دراصل انسان ہر اس چیز سے نفرت کرتا ہے ، جس سے وہ محروم ہو۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار میں مجاہدین آزادی تو پیدا نہیں ہوئے ، ہاں گاندھی جی کا قاتل نتھورام گوڈسے انہی میں سے تھا اور اسی لئے آج بھی سنگھ پریوار گوڈسے کو قومی ہیرو کا درجہ دیتا ہے ۔ گوڈسے کے حامیوں سے آزادی اور دستور کے احترام کی امید کرنا فضول ہے۔ مودی حکومت خفیہ طور پر دستور کی تبدیلی کے حق میں ہے اور دوسری طرف دنیا اور ہندوستانیوں کی آنکھ میں دھول جھونکنے کیلئے دستور کے نفاذ کا 75 واں جشن منا رہی ہے۔ کہیں یہ دستور کے نفاذ کا آخری جشن تو نہیں ؟ بی جے پی اور سنگھ پریوار لاکھ سازش کرلیں لیکن دستور میں تبدیلی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ عوام کی اکثریت کا دستور پر ایقان ہے اور وہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیں گے ۔ 75 ویں یوم جمہوریہ پر ہر ہندوستانی کو دستور ہند کے تحفظ کا عہد کرنا ہوگا۔
ہندوستان میں ایک طرف دستور کے نفاذ کے 75 سال کی تکمیل کا جشن منایا جارہا ہے تو دوسری طرف بی جے پی یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے ذریعہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی حکومت نے کئی فیصلے ایسے کئے جو غیر دستوری قرار پاتے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں اکثریت اور کمزور اپوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی کی من مانی جاری رہی۔ 2024 میں اپوزیشن مضبوط ہوا اور بی جے پی اکثریت سے محروم ہوگئی ، لہذا تیسری میعاد میں نریندر مودی کیلئے دستور کے خلاف فیصلے کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے علاوہ ون نیشن ون الیکشن اور وقف ترمیمی بل جیسے فیصلوں کا راست تعلق دستور سے ہے۔ وقف ترمیمی بل سے اقلیتوں کو دستور میں دیئے گئے مذہبی آزادی اور اپنے اداروں کے تحفظ کے اختیارات کی خلاف ورزی ہوگی۔ مرکز میں اقتدار سے محرومی کے بعد بی جے پی نے اپنی زیر اقتدار ریاستوں میں یکساں سیول کوڈ کا تجربہ شروع کیا ہے ۔ اتراکھنڈ حکومت نے یکساں سیول کوڈ کے رہنمایانہ خطوط طئے کرلئے ہیں اور صرف نفاذ کی تاریخ کا اعلان باقی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے تاکہ شادی بیاہ ، طلاق، نان نفقہ اور وراثت کی تقسیم جیسے امور میں شریعت پر عمل آوری سے روکا جاسکے۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاد پر مسلمانوں کی جانب سے جس طرح مخالفت کی امید تھی ، ویسی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ برخلاف اس کے درج فہرست قبائل نے احتجاج کے بغیر ہی حکومت کو مجبور کردیا کہ انہیں یکساں سیول کوڈ سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت سے زیادہ طاقتور تو قبائل ہیں جو اپنے اتحاد کے ذریعہ حکومت کو جھکانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ شمال مشرقی ریاستوں میں قبائل کو ملک کے دیگر قوانین سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اتراکھنڈ حکومت نے یکساں سیول کوڈ کے رہنمایانہ خطوط کے تحت بغیر شادی جسمانی تعلقات کو قبولیت دی ہے جو ملک میں بے حیائی کو عام کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ مسودہ کے مطابق شادی کے بغیر ہونے والی اولاد کو بھی جائیداد میں حصہ داری دی جائے گی۔ اسی دوران سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ملک کے اتحاد کے لئے یکساں سیول کوڈ کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے ایک تنازعہ کھڑا کردیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے رنجن گوگوئی نے بابری مسجد کی اراضی رام مندر کے حوالے کی تھی اور اس کے انعام کے طور پر راجیہ سبھا کی رکنیت دی گئی۔ یکساں سیول کوڈ کی تائید کے ذریعہ رنجن گوگوئی کی نظر شائد کسی ریاست کے گورنر کے عہدہ پر ہو۔ رنجن گوگوئی کو وضاحت کرنی چاہئے کہ کیا ہندوستان فی الوقت متحد نہیں ہے؟ اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ پر وہ خاموش کیوں رہے۔ عدلیہ میں اس طرح کی ذہنیت رکھنے والوں کا داخلہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان تمام سازشوں اور سرگرمیوں کے لئے مسلمانوں کا انتشارذمہ دار ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کو درپیش چیلنجس سے نمٹنے کی ذمہ داری صرف سیاسی قائدین کی نہیں بلکہ مذہبی قائدین کی بھی ہے۔ شائد اسی بات کو علامہ اقبال نے کچھ یوں کہا ہے ؎
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی