جلیل ازہر کی سیاست سے 40 سالہ وابستگی وفاداری کی علامت

   

محمد ریاض احمد
اگر ہم کامیاب شخصیتوں کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں دو قسم کی شخصیتیں دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی قسم ایسی شخصیتوں کی ہے جو اپنی محنت، سنجیدگی، سنجیدہ کوششوں، سچائی، دیانتداری، وفاداری، محبت و مروت، ہمدردی، ایثار و خلوص، قربانیوں، حق گوئی و بیباکی کے ذریعہ کامیابی کی منزل ہر پہنچتی ہیں اور دوسری قسم ایسی شخصیتوں کی ہوتی ہے جو عیاری، مکاری، غداری، بے وفائی، گفتاری، بے ایمانی، بددیانتی، مطلب پرستی، مفادپرستی، خودغرضی کے تعفن زدہ بیساکھیوں کے سہارے معاشرہ میں ایک اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں یہ لوگ کردار کے نہیں گفتار کے غازی ہوتے ہیں لیکن آج راقم الحروف آپ کو جس شخصیت سے متعارف کروارہا ہے (ویسے تو وہ محتاج تعارف نہیں ہے) اس شخصیت کا تعلق مذکورہ سطور کے پہلے زمرہ کی شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ اس شخصیت کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہے، جہاں تک محنت کا سوال ہے 9 سال کی عمر میں اپنے والد کا سایہ شفقت اٹھ جانے کے بعد سے ہی اپنی ماں کے آنچل کی چھاؤں میں سکون پانے والی اس شخصیت نے زندگی میں کامیابی کیلئے ضروری تمام خوبیوں و صلاحیتوں اور ہنر سے خود کو مزین کرلیا۔ چہرہ پر مسکراہٹ، زبان پر اردو اشعار، شیریں گفتگو، لب و لہجہ میں اردو ادب کی مٹھاس اس کی پہچان اس کی علامت بن گئی۔ قارئین ہم بات کررہے ہیں نرمل کے نامہ نگار سیاست جناب ابوضیا سید جلیل ازہر کی انہیں ادبی و صحافتی دنیا جلیل ازہر کے نام سے جانتی ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی وفاداری ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ وہ 40 برسوں سے روزنامہ سیاست سے وابستہ ہیں۔ جلیل ازہر کیلئے روزنامہ سیاست کیا حیثیت رکھتا ہے اور روزنامہ سیاست کیلئے جلیل ازہر کا کیا مقام ہے اس بارے میں راقم الحروف آپ کو ان کی وہ تحریر سے واقف کروانا پسند کرے گا جو انہوں نے ایک سعادت مند فرزند کی حیثیت سے اپنے مرحوم والد حضرت سید ابوسعید سید کا کلام ترتیب دیکر اسے کتابی شکل میں پیش کیا اور اس میں حروف تازہ کے زیرعنوان اپنے خیالات کی عکاسی کی۔ اس سے آپ تمام کو اندازہ ہوگا کہ سیاست ان کی زندگی میں کیا مقام رکھتا ہے۔ انہوں نے کچھ یوں تحریر کیا ’’جب میں اپنے یپروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوا اور زندگی کی کڑی دھوپ جھلسانے لگی تب پہلی مرتبہ مجھے یتیمی کا احساس ہوا، تعلیمی سفر میں اگر نصاب سے ہٹ کر میرے لئے کوئی کتاب میسری تھی تو وہ اخبار سیاست تھا اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ میری شعوری تیاری میں صرف سیاست ہی میرا نصاب رہا۔ باقی سب کچھ زائد از نصاب تھا۔ الفاظ کی نشست، طرزبیان، محاورے، اشعارے، تراکیب، تشبیہات، تشہیب، گریز، شعر کی آویزش، تحریر کا قرینہ یہ سب کچھ سیاست کی شعوری تربیت کے عناصر رہے جس نے بالآخر مجھے اخبار سیاست تک پہنچادیا اور 1983 سے آج تک سیاست کے مدیراعلیٰ جناب زاہد علی خاں کی سرپرستی نے مجھے ایک نیا حوصلہ بخشا اور نیوزایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خاں کی محبتوں نے مجھے سیاست کا اسیر کرکے چھوڑا۔ مجھے اس اعتراف میں کوئی خباحت نہیں ہیکہ میں آج جو کچھ بھی ہوں وہ روزنامہ سیاست ہی کی وجہ سے ہوں اور یہی میری سب سے بڑی شناخت ہے‘‘۔
بہرحال جلیل ازہر شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں اور ان کی ایک اور خوبی یہ ہیکہ انہیں ہزاروں شعراء کے ہزاروں اشعار ازہر ہیں جس طرح ہر قسم کے معلومات کیلئے چھوٹے بڑے مرد و خواتین گوگل سرچ کرکے معلومات حاصل کرتے ہیں، ایسے ہی جلیل ازہر اشعار کے گوگل ہیں۔ ان سے آپ ہر موضوع مختلف عناوین پر برجستہ اشتعال سن سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک اور بات آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پچھلے 40 برسوں میں انہوں نے سیاست سنڈے ایڈیشن کیلئے جو مضامین تحریر کئے ان میں زیادہ تر ’’ماں‘‘ سے متعلق ہیں۔ جب وہ ماں کے بارے میں تحریر کیلئے قلم اٹھاتے ہیں تو شاید قلم کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہوکر سیاہی میں بدل جاتے ہوں گے تب ہی تو مضامین پڑھنے والے بھی روپڑتے ہیں۔ان کی زبان و بیان بھی بہت خوبصورت ہوتی ہے۔ وہ اپنے مضامین کے ذریعہ معاشرہ میں شعور بیدار کرنے بے چین رہتے ہیں۔ ان کے مضامین خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ والدین کی فرمانبرداری ان کی اطاعت ان کی دعاؤں میں تمہاری کامیابی پوشیدہ ہے۔ اگر کامیابی و کامرانی اور زندگی میں خوشی و مسرت حاصل کرنا چاہتے ہوں تو پھر والدین کے فرمانبردار بن جاؤ۔ دنیا کی کوئی طاقت تمہیں کامیابی سے نہیں روک سکتی۔ بہرحال جلیل ازہر 40 سال قبل جس جذبہ کے تحت سیاست فیملی میں شامل ہوئے تھے، محبت، مروت، محنت، ایمانداری، دیانتداری، وفاداری کا وہی پاکیزہ جذبہ آج بھی ان میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہیکہ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں اور نیوزایڈیٹر سیاست جناب عامر علی خاں ان کی خدمات ان کے جذبہ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔