جمعیۃ علما ہند کے وفد کی وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات ، کشمیر اور این آر سی سمیت ان مسائل پر ہوئی گفتگو

,

   

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک وفد نے کل ہندوستان کے وزیر داخلہ امت شاہ سے ان کی رہائش گاہ کرشنا مینن مارگ پر ملاقات کی اور ملک و ملت کو درپیش کئی اہم معاملات پرگفتگو کی۔ وفد میں قاری عثمان کے علاوہ جمعیۃ علما ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی، امیر جمعیت اہل حدیث ہند مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی ، مفتی محمد سلمان منصورپوری رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علما ہند ، مولانا نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علما ہند ، مولانا متین الحق اسامہ کانپور صدر جمعیۃ علماء اترپردیش ، مولانا حافظ پیر شبیر احمد حیدر آباد ، شکیل احمد سید رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علما ہند ، مولانا حافظ ندیم صدیقی صدر جمعیۃ علما مہاراشٹر ، مولانا معزالدین احمد ، مولانا یحیی کریمی میوات ، مفتی محمد عفان منصورپوری اور حبیب فاروقی ممبئی شامل تھے۔

ملاقات کے وقت جمعیۃ علما ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے حالیہ اجلاس مجلس منتظمہ جمعیۃ علما ہند میں منظور کردہ تجاویز کا ہندی ایڈیشن پیش کیا اور کہا کہ جمعیۃ علما ہند کی منتظمہ کمیٹی ایسے ممبروں پر مشتمل ہے ، جو ملک کے ہر حصے اور ہر صوبے کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہیں ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اگرچہ حکومت کے ساتھ بہت سی باتوں میں ہمارا اختلاف ہے ، لیکن جہاں ملکی مفاد کی بات ہوگی ، تو ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ اسی لیے ہماری منتظمہ کمیٹی نے کشمیر کے موضوع پر قرار داد میں صاف کہا ہے کہ کشمیر اور کشمیری سب ہمارے ہیں ۔ ہم ان کو الگ نہیں کرسکتے اور ہندستانی مسلمان ہر طرح کی علیحدگی پسندی کے خلاف ہیں اور جمعیۃ علما ہند پہلے ہی سے متحدہ ہندستان کی حامی رہی ہے۔

وفد کی باتیں سننے کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دفعہ 370 کا ختم کرنا کشمیریوں کے مفاد میں ہے ، اس دفعہ سے کشمیری عوام کو فائدہ کی بجائے نقصان تھا جس کی انھوں نے کئی مثالیں بھی پیش کیں ۔ تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ اس کی وجہ سے کشمیریوں کی تہذیب کو ہرگز متاثر نہیں ہو نے دیں گے ۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ کشمیر میں 196 پولس اسٹیشن ہیں ، ان میں صرف سات میں 144 نافذ ہے ، کرفیو نہیں ہے، صرف چودہ پولیس اسٹیشنوں پر رات میں کرفیو نافذ ہوتاہے ، جہاں تک موبائل بند کرنے کا معاملہ ہے ، تو اس کی وجہ پاکستان کے ذریعہ سوشل میڈیا پروپیگنڈا ہے ۔ جس طرح کے اشتعال انگیز فرضی مواد شائع کیے جارہے ہیں ، ان سے امن و امان کو شدید خطرہ لاحق ہے ، لیکن ہم نے متبادل کے طور پر لینڈ لائن فون کا انتظام کیا ہے اور کوئی بھی شخص چھ گھنٹے کے اندر یہ سروس حاصل کرسکتا ہے ۔ مزید یہ کہ ہم نے ایک ہزار پی سی او لگائے ہیں تا کہ لوگ رابطہ کرسکیں ، لیکن جو دور دراز کا علاقہ ہے ، وہاں تھوڑی پریشانی ہے ، اسکول کھول دیے گئے ہیں ، تاہم ہم لوگوں پر جبر نہیں کرتے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ حالات نارمل ہورہے ہیں او رہم اس کے لیے ہر طرح سے کوشاں ہیں۔

این آرسی پر وزیر داخلہ نے کہا کہ این آرسی کے سلسلے میں لوگوں کو خائف ہو نے کوئی ضرور ت نہیں ہے، آسام کے سلسلے میں ہم نے سرکولر جاری کیا ہے کہ جن لوگوں کا نام شامل نہیں ہوا تو ہم ان کے لیے سرکاری طور سے مفت قانونی خدمت فراہم کریں گے اور اگر کوئی شحص خود اپنا وکیل کرلے تو ہم اس کا خرچ بھی برداشت کریں گے۔ ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ چار پانچ لوگوں کا وفد لے کر آسام جائیں اور اس پورے معاملے کی تحقیق کیجئے۔

انھوں نے بتایا کہ جہاں تک پورے ملک میں این آرسی کی بات ہے تو دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیجئے جہاں این آرسی نہ ہوا ہو۔ ہمارا مقصد اقلیتوں کو ہراساں کرنا نہیں ہے، ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ کوئی بھی شخص مذہب کی بنیاد پر زد میں نہ آئے۔ جہاں تک دراندازوں کا مسئلہ ہے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ملک کا مسئلہ ہے اور یہ قدم ملک کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

یو اے پی اے ایکٹ میں ترمیمات سے متعلق وزیر داخلہ نے کہا کہ جو بھی قانون بنایا ہے اس کے اندر اس کا لحاظ کیا گیا ہے کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو، اس میں سخت شرائط موجود ہیں۔ و زیر داخلہ نے سدبھاؤ نا کمیٹی کے قیام پر جمعیۃ کی ستائش کی اور کہا کہ اس کی کوشش جاری رکھئے ۔ آج کے دور میں باہمی گفتگو کی بڑی ضرورت ہے۔

جمعیت اہل حدیث اہل ہند کے امیر مولانا اصغر امام مہدی سلفی نے وزیر داخلہ سے کہا کہ ہم ڈائیلاگ اور باہمی گفتگو میں یقین رکھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے مسائل بالخصوص اقلیتوں کو درپیش دشواریوں کو اسی راہ سے حل کیا جائے ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم تمام مسلم تنظیموں کے ساتھ کھلے دل سے بات کرنے کو تیار ہیں۔