جموں وکشمیرمیں فوجی اہلکاروں کی 100 نئی کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں تقریباً 16000 مزید جوان وادی میں تعینات کئے جائیں گے۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلے کا جموں وکشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اورجموں وکشمیر پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی لیڈرمحبوبہ مفتی نے مخالفت ظاہرکی ہے۔ محبوبہ مفتی نےمرکزی وزارت داخلہ کے فیصلے جس کے تحت جموں وکشمیرمیں سیکورٹی فورسزکی 100 اضافی کمپنیاں تعینات کی جائیں گی، کی مخالفت کرتےہوئےکہا ہے کہ کشمیرایک سیاسی مسئلہ ہے، جس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ انہوں نےکہا کہ اضافی کمپنیوں کی تعیناتی کےفیصلےسے وادی کشمیرمیں لوگوں کےاندر شکوک پیدا ہوئے ہیں۔
پی ڈی پی سربراہ نے ہفتہ کے روزیہاں نامہ نگاروں کوبتایا: ‘یہاں سیکورٹی فورسزکی اضافی کمپنیاں بھیجی جارہی ہیں۔ یہ صحیح فیصلہ نہیں ہےکیونکہ اس کی وجہ سے یہاں کےلوگوں کےاندرشکوک پیدا ہوئے ہیں۔ جموں وکشمیرایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ آپ جب تک جموں وکشمیرمیں لوگوں کےساتھ بات چیت اورپاکستان کو شامل نہیں کریں گے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘فوج اورسیکورٹی فورسزکےذریعے توآپ جموں وکشمیرمیں عارضی طورپرامن قائم کرسکتے ہیں، لیکن دیرپا امن کےلئےمسئلہ کشمیرکوحل کرنا ضروری ہے۔
محبوبہ مفتی نے اپنے ٹوئٹرہینڈل کے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ وادی میں 10 ہزارفوجیوں کی تعیناتی کے مرکزی حکومت کے فیصلے نے لوگوں میں خوف پیدا کردیا ہے۔ کشمیرمیں سیکورٹی اہلکاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جموں وکشمیر ایک سیاسی پریشانی ہے، اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ ہندوستانی حکومت کو اپنی پالیسی پردوبارہ غوروخوض کرنے اور اس میں سدھارکرنے کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں محبوبہ مفتی نےاپنےایک ٹویٹ میں کہا: ‘مرکزی حکومت کےفیصلے جس کےتحت وادی کشمیرمیں مزید 10 ہزارسیکورٹی فورسزاہلکارتعینات کئے جائیں گے، نےلوگوں کے اندرخوف پیدا کیا ہے۔ کشمیرمیں سیکورٹی فورسزکی کوئی کمی نہیں ہے۔ کشمیرایک سیاسی مسئلہ ہے، جس کوفوج کےذریعے حل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت ہند کواپنےفیصلے پرنظرثانی اوراپنی پالیسی میں تبدیلی لانی چاہئے’۔
قابل ذکرہےکہ مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے ریاستی حکومت کوبھیجے گئےایک مکتوب میں کہا گیا ہےکہ ریاست میں سی آرپی ایف کی 50، بی ایس ایف کی 10، ایس ایس بی کی 30 اورآئی ٹی بی پی کی 10 اضافی کمپنیاں تعینات کی جائیں گی۔ مکتوب میں کہا گیا ہےکہ اضافی فورسزکی تعیناتی کا فیصلہ کونٹرانسرجنسی گرڈ کومضبوط بنانےاورلاء اینڈ آرڈرکو یقینی بنانےکےلئے لیا گیا ہے۔
اس سے قبل سابق آئی اے ایس افسراورجموں وکشمیر پیپلزموومنٹ (جے کے پی ایم) کے صدرشاہ فیصل نے بھی وزارت داخلہ کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد جموں میں افواہ ہے کہ وادی میں کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹرپرلکھا کہ وزارت داخلہ کی طرف سے کشمیرمیں مرکزی سیکورٹی اہلکاروں کے 100 اضافی جوانوں کی تعیناتی کا فیصلہ وادی میں تشویش پیدا کررہی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ کسی کو بھی اس بات کی اطلاع نہیں ہے کہ سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے کا یہ فیصلہ اچانک کیوں لیا گیا ہے۔ افواہ ہے کہ وادی میں کچھ بڑا خطرناک ہونے والا ہے۔ کیا یہ 35 اے کے بارے میں ہے۔ یہ ایک لمبی رات ہونے والی ہے