جموں وکشمیر کی فضائوں سے اُٹھتے سوالات؟

   

Ferty9 Clinic

پروفیسراخترالواسع
جموں وکشمیر کی تشکیل نوکے حوالے سے مرکزی حکومت نے جو فیصلہ کیاہے اس پر ساری دنیامیں ان دنوں بحث ہورہی ہے ،حکومت کایہ فیصلہ کچھ لوگوں کے سامنے حیران کن ہے توکچھ لوگوں کے سامنے افسوسناک ،مگرکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو پٹاخے پھوڑرہے ہیں۔راقم الحروف کامانناہے کہ مکاں بدلنے سے قبل وہاں کے مکینوں کو اعتمادمیں لیناضروری تھا۔جموں وکشمیر کی تاریخ ،تہذیب اور وہاں کے مزاج کو جاننے والے جانتے ہیں کہ حکومت کے اس فیصلے سے وہاں امن وخوشحالی سے پہلے بے چینی اوربدامنی کا دورشروع ہوسکتاہے، جس کے تدارک کے لیے کیا حکومت کے پاس کو ئی منصوبہ ہے ؟جس لداخ کے ہرشہری کو کشمیری اپنا بھائی تصورکرتے تھے اس کے الگ ہونے کے بعدمذہبی تفریق کااحساس دونوں طرف کے لوگوں کو ستارہا ہے۔ اس معاہدہ شکن فیصلے نے ہزاروں دلوں کے جذبات کو بھی چکناچورکیاہے اور ایک ایسی فضابنائی ہے جس میں حرماں نصیبی ،مایوسی اورانتشارکی کیفیت ہرچہرے پر دیکھی جاسکتی ہے۔

سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخرمرکزی حکومت جموں وکشمیرکی تشکیل نوسے کیافائدہ حاصل کرناچاہتی ہے ؟اس سوال کاجواب بھارتیہ جنتاپارٹی کے مزاج وعزائم کے بین السطورمیں پنہاں ہے اور اس کافائدہ وہ سارے دیش میںووٹوں کی مرکوزیت سے حاصل کرناچاہتی ہے۔ ظاہرہے سیاسی فائدے کی خاطر جو فیصلہ لیاگیاہے اس کے دوررس سنگین نتائج کو ابھی محسوس نہیں کیاجاسکتابس اتناسمجھ لیناکافی ہے کہ ہم نے سونے کے بدلے لوہاحاصل کیاہے۔جس جنت نشان کشمیر کو ہماری سابقہ قیادتوں نے ملک کے دھاگے سے باندھے رکھااسے موجودہ حکومت نے کٹی پتنگ کی مانند فضائوں میں چھوڑدیاہے جس کے منفی نتائج کو ہم ابھی سے ہی محسوس کرسکتے ہیں۔جموں وکشمیر اورلیہہ ولداخ کے اس پورے خطے میں ایک خاص قسم کی جوتہذیبی یکسانیت تھی اس کو پارہ پارہ کرکے ہم خیالی ترقی کا جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ جلدشرمندہ تعبیرنہیں ہونے والا۔بلا شبہ سرکارکو اس پورے خطے کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے لیکن ترقی کے نام پر اس خطہ کی تقسیم کردی گئی ہے جس کافائدہ کم اورنقصان زیادہ ہونے والاہے۔بعض تجزیہ کارتویہاں تک کہتے ہیں کہ پہلے سے ہی مسائل ومشکلات کا شکارلداخ مزید دشواریوں سے دوچارہوجائے گا کیونکہ جموں وکشمیر سے جو حمایت مل رہی تھی اس میں اب فطری طورپر کمی آئے گی۔جو افرادکارجموں وکشمیر میں ہیں ان کی خدمات محدودہوجائیں گی اورانفرااسٹرکچر کے اعتبارسے بھی لداخ یتیمی کاشکارہوجائے گا ،اسے باضابطہ خودانحصاری کی راہ پر جاتے جاتے دہائیاں لگ جائیںگی۔
جموں وکشمیرکو مرکزکے زیرانتظام کیے جانے اور وہاں کی خصوصی مراعات کو سلب کرنے کے بعد کی جو کیفیت ہے اس کااندازہ ابھی نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ ابھی توطوفان سے قبل کی خاموشی ہے مگر جلدہی کشمیرایک بارپھر شورش وکشیدگی کی راہ پر گامزن ہوسکتاہے۔قابل غوربات یہ ہے کہ کشمیر کافیصلہ کشمیرکے سیاسی قائدین کو سامنے رکھ کرکیاگیاہے اورکشمیریوں کو نظر انداز کردیاگیاہے جب کہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ کشمیرکابچہ بچہ وہاں حاصل مراعات سے دستبردارنہیں ہوناچاہتا۔ حکومت نے مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کی بجائے اسے مزیدپیچیدہ بنادیاہے اور اب مسئلہ کشمیر زیادہ گنجلک اور چہارسراہوگیاہے۔چنانچہ اب مسئلہ کشمیرکوحل کرنازیادہ مشکل ہوجائے گا کیونکہ ایک سوراخ کو بندکیاجائے گا تودوسرا منھ کھولے کھڑاہوجائے گا ،جس کاصاف مطلب ہے کہ جنت نشان کشمیرکو ایک بارپھر خاک وخون میں لت پت کرنے کی تیاری ہوچکی ہے۔ہرکس وناکس یہ جانتاہے کہ جموں وکشمیر میں شورش کافائدہ پاکستان اٹھاتارہاہے اس لیے اب اس میں کوئی قیل وقال نہیں ہے کہ وہاں علاحدگی پسندی کو مزید فروغ حاصل ہوسکتا ہے ،انتہا یہ کہ جو نوجوان پاکستان کی مذمت کرتے تھے ان کا نظریہ بھی بدلے گا ،جو لوگ ہندوستان سے الحاق کو قابل فخر اور ناقابل تنسیخ سمجھتے تھے ان کو بھی آپ نے بے دست و پا بنا دیاہے۔
سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخر کشمیر کے ان حالات کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے پاس کیامنصوبہ ہے ؟دفعہ 370 اور 35A کے تحت کشمیریو ںکی خصوصی مراعات کوختم کرنے کے بدلے مرکزی حکومت انہیں کیاکیا سہولتیں دینے کاارادہ رکھتی ہے ؟داخلی کشمکش،علاحدگی پسندی اور کشمیری نوجوانو ںکی مرکزسے نفرت کو ختم کرنے کاکیامنصوبہ ہے؟کئی دہائیو ںکی کوششوںکے بعد کشمیری نوجوانوں نے دہشت گردی کی راہ چھوڑکرتعلیم وترقی کی راہ اپنائی تھی ان کے اذہان کو مثبت راہ پر قائم رکھنے کے لیے حکومت نے کون کون سی اسکیمیں تیارکی ہیں ؟ ان جیسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات فی الحال حکومت کے پاس نظر نہیں آرہے ہیں ۔اس لیے ہمیں سب سے پہلے اس پرکشش روڈ میپ کو سامنے لاناچاہیے تاکہ ذہنی طورپر کشمیری نوجوان ترقیاتی عینک سے سب کچھ دیکھ سکیں۔
حکومت نے جموں وکشمیر کی خصوصی مراعات کو ختم کرنے اورلداخ کو علاحدہ کرنے کی وجہ وہاں ترقی کی گنگابہانابتایاہے ،حکومت کاموقف ہے کہ لداخ کو الگ کرکے وہاں ترقیاتی کاموں کو رفتار دی جاسکتی ہے ،اسی طرح جموں وکشمیر کی خصوصی مراعات والی دفعات کو کالعدم کرکے وہاں بھی ترقیاتی رکاوٹوں کو دورکیاجاسکتاہے ،سوال یہ ہے کہ آخراب تک وہاں ترقیاتی کاموں سے کس نے روکاتھا ،یہ کون سی منطق ہے کہ وہاں پہلے شورش وبے چینی پیداکی جائے پھر اس کے بعدترقیاتی منصوبوںکوزمین پر اتاراجائے۔
مرکزی حکومت جموں وکشمیر میں جس بلیوپرنٹ پر عمل پیراہے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے ،ہمیں ڈرہے کہ پھر امن وامان کو نظر نہ لگ جائے اور ایک نئے قسم کے مسائل سے ہمیں دوچارہوناپڑے۔دفعہ 370کو ختم کرکے حکومت بقیہ ہندوستانیوں کو وادی کشمیر کے لالہ وگل سے فیضیاب کرناچاہتی ہے اورچاہتی ہے کہ بنارس کے لوگ بھی ڈل جھیل کے کنارے آبادہوجائیں لیکن ہمیں ڈرہے کہ ابھی تک توہم سیروتفریح کے لیے وہاں کے قدرتی حسن سے محظوظ ہوپاتے تھے مگراس نئے ماحول میں کہیں احتجاج کی آندھی اس قدرتیز نہ ہوجائے اورعصبیت کے گھٹاٹوپ اندھیرے اتنے مہیب نہ ہوجائیں کہ ہم سیروتفریح کے لطف سے بھی محروم ہوجائیں۔کیونکہ قارئین کو یادہوگاکہ ایک طویل عرصہ ایسا گزرچکاہے کہ جب ہندوستان کے بقیہ حصوں سے لوگ چاہ کربھی وہاں نہیں جاپاتے تھے کیونکہ گن گولی اوربم وبارودکی گھن گرج میں کوئی بھی جاناپسندنہیں کرے گا۔ میں تمناکرتاہوں کہ ایسی کیفیت پھر کبھی پیدانہ ہو لیکن حکومت کو ان سب چیزوں پر پیشگی توجہ رکھنی چاہیے ۔ہمیںپاکستان کی فکرنہیںہے کیوں کہ کشمیرسے محبت کاناٹک پاکستان کا محض ایک سیاسی ڈھکوسلہ ہے۔جنت نظیرکشمیرہمیشہ سے ہندوستان جنت نشان کا حصہ تھا،ہے اور رہے گا۔لیکن ہمیں فکرکشمیرمیں موجود ان قائدین کی ہے جو سدا سے ہندوستان کے طرف دار رہے ہیں اور آج ہم نے ہندوستان حامی اور علاحدگی پسند قائدین کے بیچ میں سے ہر فرق کو مٹا کرسب کو یکساں طور پرنہ صرف ایک صف میں کھڑا کر دیا ہے بلکہ نظر بند بھی کر دیا ہے۔ہمیں یادرکھناچاہیے کہ عوامی اعتمادکے بغیرہم ترقی کا دریانہیں بہاسکتے ،اس لیے ہمیں جموں وکشمیر اور لداخ کے عوام کے جذبات کی قدرکیے بغیرآگے بڑھنے کی بھول نہیں کرنی چاہیے۔

اس نازک اور آزمائشی مرحلے میں میںتمام کشمیری قائدین بالخصوص علاحدگی پسند لیڈروں سمیت دیگرطاقتوں سے بھی اپیل کروں گا کہ وہ کشمیریو ںکوجذباتی نعروں کے سہارے علاحدگی پسندی کی راہ پرنہ ڈالیں ،حالات چاہے جیسے بھی ہوں انہیں ہرحال میں امن واخوت کے ماحول کی پرورش کرنی چاہیے۔انہیں سمجھناچاہیے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں انہیں اپنے خیالات کی آزادی ہے وہ حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرسکتے ہیں ،حکومت کے اعلیٰ عہدیدران کو اپنا میمورنڈم سونپ سکتے ہیں اوروہاں کی صورتحال کے تناظر میں عوامی جذبات پر مبنی تجاویز حکمرانو ںکے سامنے پیش کرسکتے ہیں، عدالتوں کاسہارالے سکتے ہیں ۔اس لیے خداراکشمیری نوجوانوں کو اکسانے ،اسٹبلشمنٹ کو اکھاڑپھینکنے یاسیکورٹی ایجنسیو ںکواپنادشمن تصورکرنے کی تلقین والی تحریکات نہ چلائیں۔یادرکھیں کہ ہندوستان میں جوجمہوری حقوق اورآئینی تحفظات ہمیں حاصل ہیں وہ ہمیں ایسی طاقت وقوت عطاکرتے ہیں جو کسی بھی حکومت کی معاندانہ روش کے سامنے زیادہ مضبوط وطاقتو رہیں۔

کشمیری لیڈران کو پوری سنجیدگی سے ایک بارپھر آئینی جنگ لڑنی چاہیے اورایسی کسی بھی روش سے پرہیز کرناچاہیے جس کافائدہ پاکستان اٹھاکر ہمارے ملک اور ان کے ہندوستان کے ساتھ تعلق کو مشکوک بنائے رکھنے میں کامیباب ہوجائے ۔کشمیریو ںکویادرکھناچاہیے کہ پاکستان ان کے حق کی بات کرکے اپنے مفادات کاتحفظ توکرسکتاہے مگر ان کے خیروفلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاسکتاجب کہ وطن عزیز کے حکمراں چاہے کس قدربھی عصبیت زدہ ہوں وہ آپ کے بنیادی حقوق نہ زیادہ دیر چھینے رکھ سکتے ہیں اورنہ ہی آپ کی ترقی کو روک سکتے ہیں ۔اس لیے کشمیری عوام،وہاں کے سیاسی ومذہبی نمائندے اورعلاحدگی پسندلیڈران کو ہرقدم پھونک پھونک کررکھناچاہیے اورحکومت کو بھی وہاں کی ترقی کاکوئی واضح روڈ میپ سامنے لاناچاہے ساتھ ہی موجودہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کے عوام کو یہ بھی بتائے کہ دفعہ 370 کا خاتمہ کشمیرمیں ہی کیوں اگرآپ ایمانداری سے ایک ملک ،ایک دستورکے حق میں ہیں تو پھر شمال مشرقی ریاستوں کو اس قومی ہم آہنگی اور یکجہتی سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔٭
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)