سری نگر: پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ صوبہ جموں میں بعض شرپسند عناصر سرگرم ہوگئے ہیں جنہوں نے وہاں مسلمانوں بالخصوص گوجر بکروال طبقے کا جینا دشوار کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں کے مسلمان اس وقت اپنے آپ کو بہت خوف زدہ محسوس کر رہے ہیں۔ بقول ان کے اگر گورنر ستیہ پال ملک نے اس نازک صورتحال کو نہیں سنبھالا تو اس کے جموں اور کشمیر میں بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ گوجر بکروال طبقے کو چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں اپنے گھروں سے محروم کرنے کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔
محبوبہ مفتی اتوار کے روز یہاں اپنی رہائش گاہ پر نیوز کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔ انہوں نے کہا ‘جموں میں کچھ شرپسند عناصر سرگرم ہوگئے ہیں۔ ایک جٹ جموں اور سیو جموں جیسی تنظیمیں ایسے پروگرامز منعقد کرتی ہیں جن میں وہ مسلمانوں بالخصوص گوجر بکروالوں کے خلاف زہر اگلتی ہیں’۔انہوں نے کہا ‘جموں کے مسلمان اس وقت بہت خوف زدہ محسوس کر رہے ہیں۔ اگر گورنر ستیہ پال ملک اس نازک صورتحال کو نہیں سنبھالیں گے تو اس کے نتائج نہ صرف جموں بلکہ کشمیر کے لئے بھی بہت خطرناک ہوں گے۔ جموں میں کچھ ہوتا ہے تو اس کا اثر وادی میں دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں کچھ ہوتا ہے تو اس کا اثر جموں میں دیکھا جاتا ہے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوسکتی ہے’۔ انہوں نے کہا ‘گوجر بکروال طبقہ سب سے زیادہ وفادار طبقہ ہے۔ اس طبقے نے اس ملک کی حفاظت کی ہے۔ آج اگر ہم ان ہی کے گھر توڑیں گے اور انہیں اپنے گھروں سے کھدیڑیں گے تو یہ اس ریاست کے لئے اچھا نہیں ہے’۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھیڑ بکریاں پالنے والے گوجر بکروال طبقے کو مویشیوں کی اسمگلنگ کے نام پر بھی تنگ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جموں وکشمیر میں مسلمانوں کو الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ محبوبہ مفتی نے کہا ‘صوبہ جموں گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے ملی جلی تہذیب کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔ جب کشمیر میں حالات خراب ہوئے تو یہ جموں ہی تھا جس نے یہاں سے ہجرت کرنے والے لوگوں کو جگہ دی۔ جموں میں بی جے پی کو ایک بڑا منڈیٹ ملا تھا۔ وہاں رہائش پزیر مسلمانوں کو عدم تحفظ کا احساس ہونے لگا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ بی جے پی اکثریت میں آگئی ہے اور پتہ نہیں یہ جماعت اب ہمارے ساتھ کیا کرے گی’۔ انہوں نے کہا ‘یہ بھی ایک وجہ تھی کہ ہم نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ ہم نے نہ صرف بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا بلکہ قبائلی امور کی ایک الگ منسٹری بنائی۔ جموں میں قبائلیوں کو پہلے بھی کھدیڑا جاتا تھا اور تنگ کیا جاتا تھا۔ اس منسٹری کی بدولت قبائلیوں کی ضروریات کا خیال رکھا گیا۔ ہم نے اپنی حکومت کے دوران یہ کوششیں کیں کہ گوجر بکروال اور ایسے دوسرے طبقات کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔ بدقسمتی سے رسانہ (کٹھوعہ میں عصمت دری و قتل) کا واقعہ پیش آیا۔ وہ انتہائی تکلیف دہ واقعہ تھا’۔
محبوبہ مفتی نے کہا ‘ہم نے اپنی حکومت میں فارسٹ ایکٹ کو لانے کی کوششیں کیں۔ اس کا مقصد گوجر بکروالوں کے ساتھ روا رکھے جارہے امتیازی سلوک کو بند کرنا تھا۔ میں نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں میں نے کہا تھا کہ جب تک فارسٹ ایکٹ نہیں لایا جاتا ہے تب تک گوجر بکروال طبقہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں امید تھی کہ گورنر صاحب کے وقت میں کسی کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے گورنر صاحب کی ناک کے نیچے گورجر بکروالوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے’۔انہوں نے کہا ‘ہماری حکومت ٹوٹنے کے محض ایک ماہ بعد درجنوں گجربکروالوں کنبوں کو نوٹس بھیجے گئے ہیں کہ وہ اپنے گھر خالی کریں۔ دسمبر کے مہینے میں بھی انکروچمنٹ کے نام پر کئی گوجر بکروال کنبے اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے، حالانکہ میں جموں میں تھیں۔ میں نے گورنر صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ سردیوں کے موسم میں ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ جاری ہے’۔
محبوبہ مفتی نے الزام لگایا کہ جموں میں جان بوجھ کر مسلم آبادی والے علاقوں میں زمین کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں اور ایسے علاقوں کو میونسپل حدود میں لایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا ‘جموں کے ایسے علاقے جہاں مسلمان آباد ہیں، بٹھنڈی میں ایک کنال زمین کی قیمت ایک کروڑ پانچ لاکھ روپے تک پہنچا دی گئی ہے۔ مسلم آبادی والے علاقوں کو میونسپل حدود میں لایا جارہا ہے تاکہ وہاں ڈھانچوں کی تعمیر کو مشکل بنایا جائے۔ اس کے علاوہ جموں کے مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ 1947 کے حالات پیدا کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں’۔