جمہوریت میں آمریت کی مہذب سماج میں گنجائش نہیں

,

   

سپریم کورٹ کی وکیل و سماجی جہدکار منیکاگروسوامی کا مائی کانسٹیٹیوشن کنٹری پر خطاب

حیدرآباد۔5اکٹوبر(سیاست نیوز) بدنام زمانہ ایمرجنسی کے دور میںبھی حبس بیجا کی تحریری درخواستوں پر اندرون چوبیس گھنٹے سنوائی ہوجاتی تھی مگر آج کے دوران میں ایسا نہیںہورہا ہے اور میڈیا اس پر سوال اٹھانے سے کترا رہا ہے ۔ اگر اس کو جمہوریت کہتے ہیںتو یہ جمہوریت نہیں بلکہ آمریت ہے ‘جس کی مہذب سماج میںکوئی گنجائش نہیں ہے اور اس پر خاموشی بھی قابل افسوس ہے۔ سپریم کورٹ کی ممتاز وکیل او رسماجی جہدکار منیکا گروسوامی نے منتھن کے سمواد میں ’’مائی کانسٹیٹیوشنس کنٹری‘‘ کے عنوان پر ان خیالات کا اظہار کررہی تھیں۔ منیکا گروسوامی نے کشمیر کے حوالے سے کہاکہ اگر ہم آج جمہوری ہندوستان میںرہتے ہیںتو آخر کیوں کشمیر کے حالات پر خاموش ہیں‘ حبس بیجا کی تحریری شکایتوں پر سنوائی میں تاخیر کیوں ہورہی ہے اور کیا جمہوری ملک میںاس طرح کا طرز عمل واجبی قراردیا جائے گا۔ گروسوامی جو اپنی بے باکی کے لئے کافی مشہور ہیں نے آئینی مراعات کی شروعات26جنوری 1950سے ہوئی مگر اس سے قبل کے ہندوستان کے حالات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ 1949سے لے کر آئینی قوانین کی تشکیل تک مذہب کے نام پر قتل وغارت گری عام بات تھی ‘ دستور ہند کے معماروں نے ان واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دستوری اور آئینی مراعات کی تشکیل عمل میںلائی تاکہ ہندوستان کو کسی ایک خاص طبقے یا مذہب تک محدو د کرنے سے بازر کھا جاسکے۔انہوں نے گجرات کے بشمول ہندوستان کی ایسی کئی ریاستوں کا بھی حوالہ دیا جہاں پر مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے نام پر زیادتیاں کی گئیں اور انہیںمارا اور پیٹا گیا۔شریمتی منیکا گروسوامی نے اپنے خطاب کے دوران ملک کے موجودہ حالات کا تقابل 1949کے ہندوستان سے کرتے ہوئے کہاکہ آج ملک میںحمل ونقل کے لئے خوف کاماحول پایاجاتا ہے ‘ کھلے عام عوامی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور کوئی اس پر سوال نہیںاٹھارہا ہے حالانکہ ہمارے ملک کا آئین چار اہم اقدار کو اب بھی برقرار رکھا ہے جو مساوات‘ بھائی چارہ ‘ وقار اورتفریق سے گریز پر مشتمل ہیںجو ملک میںتشدد اور مذہبی تقسیم کے پس منظر کے عین خلاف ہے۔گروسوامی نے کہاکہ دستور ہند نے کئی پسماندہ اور پسماندگی سے نچلی سطح پر زندگی گذارنے والے لوگوں کے لئے آزادی کی توسیع کی ہے۔ مگر آج آئینی مراعات پرمشتمل آزادی ایک سونچ پر مشتمل ذہنیت کے ساتھ سکڑ رہی ہے، جو ملک کے مستقبل کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔انہوں نے استفسار کیاکہ جمہوری ہندوستان میںسب سے اہم سوال گاندھی کے قتل کے نظریہ کی حمایت ہے اور یہ کام ہورہا ہے جو ہمارے آئینی معاہدے کی تبدیلی کا سب سے بڑا عنصر ثابت ہوسکتا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میںکیا ہورہا ہے اور ملک کس سمت گامزن ہے مگر ہم سوال پوچھنے سے گریز کررہے ہیں‘ اور سوال کا وہ حصہ نہیںپوچھا جارہا ہے جو جمہوری نظام کا اہم حصہ مانا جاتا ہے۔