جمہوریت میں ووٹ کی اہمیت

   

عثمان شہیدایڈوکیٹ
جس طرح نکاح کے دو بول کے لئے قانونی حیثیت پانے کے لئے نکاح کی ضرورت ہے اسی طرح جمہوری حکومت کی بقاء کے لئے ووٹ کی اہمیت ہے جیسے چراغ اس وقت تک نہیں جلتا جب تک کہ اس میں تیل نہ ہو۔ پیروں کی خوبصورتی پازیب کے وجود سے ہے ، ہاتھوں کی خوبصورتی کنگن سے ہے، گلے کی خوبصورتی سجاوٹ کے زیور سے ہے، ہتھیلی کی زیبائش مہندی سے ہے ، اسی طرح جمہوری حکومت کا وجود ووٹ سے ہے۔ ابراہم لنکن نے کیا خوب کہا کہ جمہوریت ایسی حکومت ہے جو عوام کے لئے ہے ،عوام سے ہے اور عوام کے ذریعہ ہوتی ہے۔ عوام برائہ راست حکومت نہیں کرتی بلکہ اس کے نمائندے یا یوں کہیئے کہ اس کے منتخبہ نمائندے حکومت کرتے ہیں۔جیسے میونسپل کائونسلر ، ایم ایل اے، ایم پی، قانون سازی کرتے ہیں اور ملک کی فلاح وبہبود کے لئے بہتر سے بہتر قانون بناتے ہیں۔ ہم نے 1950 ء میں دستورِ ہند کا لبادہ اوڑھ لیااور ہندوستانی شہری کی حیثیت سے حلف لیا کہ قانون کا پاس و لحاظ کریں گے۔ ہمارا ہر کام ہر فعل دستور کے دفعات کے تحت ہوگا۔ ملک کے شہریوں کو بنیادی حقوق دستورہی عطا کرتا ہے جس سے روگردانی جرم ہے۔ دستوری دفعات ہمارے لئے مذہبی اشلوکوں کی طرح مقدس ہیں۔ دستوری دفعات کی حفاظت کے لئے ہم جان کی بازی لگادیں گے۔ جس طرح مختلف النوع پھول چمن کی زینت بڑھاتے ہیں اسی طرح الگ الگ قسم کے پھول چمن کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہیں، ہوا کو معطر کرتے ہیں، صحت کی ضمانت دیتے ہیں۔ پانی،ہوا چمن ہی کی مرہون منت ہے۔
ہم ضرور ووٹ دیں، ملک کی ترقی کے لئے ،ملک کی حفاظت کے لئے یہ ہمارا دنیاوی فریضہ ہے۔ یاد رکھیں آج ملک میں فرقہ پرستی بڑھتی جارہی ہے، کسی نہ کسی عنوان کے تحت فرقہ پرست جماعتیں محض ووٹوں کے حصول کے لئے ہم کو صرف اور صرف تقسیم کررہی ہیں اور فرقہ پرستی کے آئینے کو سیکولرازم کا پتھر ہی چکنا چور کرسکتا ہے۔ ہم سیکولرازم کو مضبوط کرنے کے لئے صرف اور صرف ووٹوں کے پتھر سے کام لیں اور فرقہ پرستی کو ناکام بنائیں۔ فرقہ پرستی کاغذ کی نائو ہے۔
ملک کی ترقی کے لئے فرقہ پرستی کا زہر کا تریاق ووٹ کا استعمال ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستانی شہریوں نے جس طرح آزادی پانے کے لئے جان کی بازی لگادی تھی اسی طرح آزادی کی بقا کے لئے ووٹ کے ذریعہ جان کی بازی لگادیں۔ آج پھر جلیان والا باغ جوان ہوکر ہماری قربانیاں مانگ رہا ہے۔ ’’اٹھووگرنہ حشر ہوگا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ہندوستانی شہری اپنی ماں سے کہہ دے ماں میرا رنگ دے بسنتی چولا،میں دیکھنا چاہتا ہوں ہے زور کتنا بازو قاتل میں ہے۔ ہر فرد ٹیپوسلطان شہید کی طرح ،نواب سراج الدولہ کی طرح میدان میں ووٹ کا ہتھیار لے کر میدان عمل میں اترجائے۔
ووٹ دینے کے لئے نہ دولت کی ضرورت ہے نہ ڈگری کی ضرورت ہے نہ اچھے لباس کی، ضرورت ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ہم 18 سال کے ہوجائیں اور اس طرح مرتے دم تک ہم ووٹ دیتے رہیںگے۔ اپنا ووٹ فروخت نہ کریں اور بوگس رائے دہی سے بچتے رہیں۔کوئی مذہب ووٹ دینا حرام ہے کی تعلیم نہیں دیتا۔یہ سال بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ فرقہ پرست اور سیکولر جماعتوں میں راست ٹکرائو ہورہا ہے۔ ایسے وقت ہم صرف اور صرف سیکولر ازم کی چادر کو پھٹنیں نہ دیں، ہر قیمت اس کی حفاظت کریں۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے اَئے ہندی مسلمانو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں