جمہوریت نام ہے عوامی حکومت کا !

   

حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

ہمارا وطن عزیز ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اسی لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے ہرسال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایاجاتاے یوم جمہوریہ2025مبارک ہو: اس سال 26 جنوری کو ہندوستان کا 76 واں یوم جمہوریہ منایا جا رہا ہے۔ یہ اس دن تھا جب سابق برطانوی کالونی نے آئین ساز اسمبلی کے ممبران کے ذریعہ تیار کردہ اپنا آئین اپنایا تھا۔ 26 جنوری 1950 کو ہندوستان کے آئین کے قیام کی نشان دہی کی گئی جب یہ ایک ظالمانہ نوآبادیاتی ماضی سے ابھرا۔ تاہم، یہ 26 نومبر 1949 کو تھا جب ہندوستانی آئین کو پہلی بار اپنایا گیا تھا۔ 26 نومبر کو یوم آئین کے طور پر منایا جاتا ہے۔۔ہندوستان دنیا کی سب سے فعال جمہوریت ہے، ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ اس کی باگ ڈور براہ راست عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ کیوں کہ جمہوریت کہتے ہی ہیں ایسی طرز حکومت کو جس میں حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار جمہور کے نمائندوں کو حاصل ہو۔ ان نمائندوں کا انتخاب عوام کرتے ہیں۔ جو اپنی پسند کا حکمراں چنتے ہیں۔ جمہوری ملک میں شہریوں کو مختلف قسم کے حقوق حاصل ہوتے ہیں، مثلاً : اظہار رائے کی آزادی ، اپنے اپنے مذاہب و عبادات پر عمل کرنے کا حق تعلیم کا حق ، ووٹ ڈالنے کا حق ، اپنے مذہب کے مطابق شادی بیاہ کرنے کا حق اور اس کے علاوہ بھی بہت سے حقوق جمہوری ملک کا آئین عطا کرتا ہے۔ یہی آئین، جمہوری طرز حکومت کو آمریت سے ممتاز کرتا ہے۔ آئین ہی جمہوریت کی شان ہے ۔ہندوستان کے شہری آئین کے نفاذ کا جشن یوم جمہوریہ کے نام پر ملک کے کونے کونے میں بڑے ہی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ خصوصا ملک کی راجدھانی دہلی میں یوم جمہوریہ کا جشن دیدنی ہوتا ہے۔ کیوں کہ یوم جمہوریہ، ہندوستانیوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن قانون ساز اسمبلی کے ذریعے تیار کردہ آزاد ہندوستان کے آئین کا نفاذ عمل میں آیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے قانون سازی اسمبلی کا پہلا اجلاس 9 دسمبر 1946 ء کو منعقد ہوا مجلس قانون ساز نے متفقہ طور پر 17 دسمبر 1946کو ڈاکٹر راجندر پرساد کو مجلس قانون ساز کا صدر چنا، قانون ساز اسمبلی کے ذریعے 22جنوری 1947کو قانون کے لیے چند معروضات پیش کئے گئے۔ انہیں معروضات کے پیش نظر دستور مرتب کیا گیا۔ جس میں ہر طبقہ ، ہر ذات ، ہر مذہب کے لوگوں کے حقوق کا خیال کیا گیا۔ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ جدوجہد آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے لیڈروں مثلاً مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، سبھاش چندر بوس، ڈاکٹر راجندر پرساد، مولانا ابولکلام آزاد، سروجنی نائیڈو وغیرہ، نے فیصلہ کیا کہ آزادی کے بعدہندوستان ایک جمہوری ملک بنے گا جہاں عوام کی حکومت عوام کے ذریعے منتخب ہوگی۔ ہندوستان کوطویل جدوجہدکے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔
غیرملکی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کوقائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں، تدبیریں کیں، رشوتیں دیں، لالچ دیئے، پھوٹ ڈالوں اورحکومت کروکااصول بڑے پیمانے پر اختیار کیا،فرقہ وارانہ اختلافات پیداکیے، حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کیا، آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں، تاریخ کومسخ کیا،انگریزوں نے ہندوستان کے معصوم باشندوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے اورناحق لوگوں کوتختہ دارپرلٹکایا، ہندوستانیوں پرناحق گولیاں چلائیں، چلتی ریلوں پر سے اٹھاکرباہر پھینکا؛ مگر ان کے ظلم وستم کوروکنے اورطوقِ غلامی کوگردن سے نکالنے کے لیے بہادر مجاہدین آزادی نے ان کا مقابلہ کیااورملک کوآزادکرکے ہی اطمینان کاسانس لیا۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتاز و نمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائداوررہنماکاپارٹ اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔