جمہوریت کی بقاء کیلئے ملی تنظیموں کا صحیح وقت پر صحیح قدم

   

ڈاکٹر ادریس قریشی
کہاوت ہے کہ بچہ اگر روئے نہیں تو ماں بھی دودھ نہیں پلاتی ہے اور یہ کہاوت موجودہ حالات میں درست ثابت ہو رہی ہے۔ادھر مسلم تنظیموں نے 17مارچ2025کو جنتر منتر پر دھرنے کا اعلان کیا ادھر تمام اپوزیشن جماعتوں نے وقف ترمیمی بل کے خلاف پارلیمنٹ میں زور دار مخالفت کا اعلان کردیا۔حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی اور کانگریس صدر ملکا ارجن کھڑگے نے تمام سیاسی و سماجی پارٹیوں سے بات چیت شروع کر دی،اس پہل سے ایک بات اور ثابت ہو جائے گی کہ چندر بابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی اور نتیش کمار کی جے ڈی یو کی کیا حقیقت ہے وہ اپنے پہلے مؤقف پر ڈٹے رہتے ہیں یا پھر حکومت کے ہمنواں بن کر اپنی شاخت کو ختم کر دیں گے ان دونوں پارٹیوں کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔؟
ملک میں موجودہ حالات میں مسلم سماج جن دشواریوں سے گزر رہا ہے وہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ بدقسمتی سے ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں اقتدار آگیا ہے جو کہ اپنے کو دیش بھگت بتاتی ہے مگر عملی طور پر کام بالکل بر عکس ہے۔ جب تک ملک کے تمام باشندے بلا تفریق ترقی نہ کریں ان کی آمدنی ان کا رہن سہن اور تعلیم کا معقول انتظام اور صحت کا نظام بہتر نہ ہو تو کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے؟مگر موجودہ سرکار کا اس پر کوئی دھیان نہیں ہے بلکہ اس کا صرف اور صرف ایک ہی مشن ہے کہ کیسے اپنی سرکار قائم رکھی جائے۔اس واسطے ملک چاہے تباہ ہوجائے یا ملک میں افرا تفری کا ماحول بن جائے؟
چونکہ ملک کوایک لمبی غلامی کے بعد آزادی ملی تھی اور ایک جمہوری اور سیکولر نظام قائم ہوا تھا اس وجہ سے جو لوگ آزادی کے وقت امید کر تے تھے کہ یہ ملک ایک جمہوری ملک رہ ہی نہیں پائے گا ان کو مایوسی ہوئی کیونکہ اس وقت کے رہنماؤں کی دور اندیشی اور عملی جدو جہد سے یہ ایک مضبوط اور طاقتور ملک بن کر دنیا کے نقشہ پر ابھر گیا۔ مگر ملک کی بد قسمتی ہے کہ ایسے لوگ جو جنگ آزادی کے مخالف تھے وہی آج 60-70سال کے بعد حکومت میں آگئے اور اپنے نفرتی ایجنڈا پر کام کرنا شروع کر دیا اور انھوں نے ہند و بھائیوں اور مسلم سماج کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کردی ہے اور مستقل ایک ایجنڈا اپنا لیا ہے جو بھی شخص مسلمانوں کے مخالفت میں قدم اٹھائے گا اس کو سرکار کا پورا سپورٹ مل جاتا ہے اس کے خلاف پولیس کوئی ایکشن لینے کو تیار نہیں ہوتی اور مسلمان غلطی سے بھی کسی کے اوپر ایک لفظ بھی کہہ دے تو پولیس فوراًاس کے خلاف مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیتی ہے اور عدالت بھی فوراًریمانڈ دے دیتی ہے۔اس کو کیسے روکا جائے اور کیسے انصاف کا ماحول پیدا ہو یہ صرف سرکار کے رویہ سے ہی بدلا جا سکتا ہے کیونکہ آج کے وقت میں موقع پرست لوگوں کی کثیر تعداد ہے وہ اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں انھیں ملک اور انسانیت دونوں سے کچھ لینا دینانہیں ہے۔؟
ملک کا آئین بنانے والے عظیم رہنما ڈاکٹربھیم راؤ امبیڈکر صاحب نے کہا تھا کہ ’’قانون کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہومگر وہ اسی وقت برا ثابت ہوگا جب اس کے نافذ کرنے والے برے ہوں گے۔ آئین کے اچھے برے ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ اسے کون لوگ اور کیسے نافذ کر رہے ہیں‘‘۔ملک کے موجودہ حالات میں ملک کی اقلیتیں ایک درد ناک ماحول میں جی رہی ہیں اور موت کا سایہ ہر وقت ان کے سر پر لہر ا رہا ہے۔حالات ایسے ہیں کہ جو جہاں چاہتا ہے پکڑ لیتا ہے اور ماب لنچنگ کر دیتا ہے یا پھر مار پیٹ کرتا ہے، داڑھی نوچتا ہے، برقع اتار لیتا ہے، سڑکوں پر مارتا اور پیٹتا ہے، اس کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے، مگر ہماری سرکاریں ظلم و جبر کے اس ننگے ناچ پر خاموشی اختیار کرکے بیٹھی ہوئی ہیں۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی ایماء پر ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہے بلکہ ارباب اقتدار اس کو زیادہ بڑھاوا دے رہے ہیں تاکہ ملک کی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے درمیان جتنی زیادہ ہو سکے دوریاں پیدا کر دیں۔ اس طرح ان کی حکومت اور زیادہ دن تک قائم رہے گی، ملک کے اکثریتی طبقہ کا بڑا حصہ اس سے ناراض تو ہے مگر سرکار کے غنڈوں کی وجہ سے خاموش ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بربادی کے دہانے پر پہنچ رہا ہے؟ دوسری طرف وزیراعظم مودی کا نعرہ ہے ’’سب کا ساتھ،سب کا وکاس‘‘ مگر کام بالکل اس کے برعکس ہے۔ سرکاری اعدادو شمار اور بین الاقوامی اداروں کے سروے بتاتے ہیں کہ مرکز میں بی جے پی کے دوسری بار زیادہ بھاری اکثریت سے اقتدا میں آنے سے اقلیتوں اور کمزوروں پر جرائم اور نفرتی تشدد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ تیسری بار گرچہ اس کی مقبولیت میں کمی آئی، حلیفوں کی حمایت سے اقتدار تک پہنچی لیکن اقلیتوں پر ظلم اور بڑھ گیا۔ ساؤتھ ایشیا کلیکٹو کی سالانہ رپورٹ ’’جنوبی ایشیا میں اقلیتوں کی حالت‘‘ کے مطابق صرف ایک سال (2023-24) میں یہاں اقلیت کے لوگوں کا 45 ماورائے عدالت قتل کیا گیا جن میں سے20 قتل پولیس نے کیے ہیں، بقیہ ہندوتو فرقہ پرستوں نے انجام دیے۔ مسلمانوں کے گھروں، کاروبار اور عبادت گاہوں پر بلڈوزر چلایا گیا۔ ہندوستان کی ایک سب سے بڑی اردو آبادی والی ریاست کا وزیراعلیٰ اسمبلی میں کھڑا ہو کر اردو کوکٹھ ملّے کی زبان کہتا ہے، کہتا ہے کہ اس کو پڑھنے سے کٹھ ملا ّپیدا ہوتے ہیں۔اسی اسمبلی میں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم مسلم بچوں کو ڈاکٹر اور سائنسدان بنانا چاہتے ہیں، اور کام اس کے بالکل برعکس ہے کہ ریاست کی دو بہترین یونیورسٹیوں، جوہر یونیورسٹی رام پوراو رگلوکل یونیورسٹی سہارنپور کو برباد کیا جارہا ہے؟ ابھی اسی کی نقل کرتے ہوئے راجستھان حکومت نے بھی مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے چانسلر عتیق احمد صاحب اور آسام کے وزیراعلیٰ نے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ کے بانی و چانسلر پروفیسر محبوب الحق کو جھوٹے کیس میں گرفتار کیا ہے جبکہ یو ایس ٹی ایم نے اکریڈیشن میں اے گریڈ حاصل کیا ہے۔
دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر اپنی آواز اٹھاتی ہیں مگر موجودہ سرکاریں کسی کا کوئی اثر لینے کو تیار نہیں ہیں اور ان کا ایک ترجمان اس کو فوراً خارج کر دیتا ہے۔اس کے علاوہ سرکار نے اپنے مقصد میں ان کا میابیوں کے بعد کارپوریٹ گھرانوں سے اصولیابی اور ان کی حمایت میں کام کرنے کے لیے ملک کے سب سے مضبوط ووٹ بینک پر ہاتھ ڈالا تھا۔کھیتی کی زمینوں کو ہڑپ کرنے کے لیے تین کالے قانون پارلیمنٹ سے پاس کر اکر ان کی زمینوں کو ہڑپ کرنے کی اسکیم تیار کی تھی۔ مگر کسانوں نے مضبوط قوت ارادی اور استقامت سے اس کا مقابلہ کیا اور 700کسانوں کی جانوں کی قربانی دے کر ایک سال تک سرکار کے ہر حربے کو ناکام بنا دیا۔ نتیجتاً اسے وہ کالے قانون واپس لینے پڑے۔ گرچہ اس سرکار نے جو بھی ان سے وعدے کیے تھے وہ آج تک پورے نہیں کیے، کسانوں کا ایم ایس پی کا وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا اور کسان اب بھی میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور مستقل جدو جہد کر رہے ہیں۔
اب کارپوریٹ گھرانوں کی نظر ملک میں مسلمانوں کی اوقاف کی زمینوں پر ہے، اس کو لینے کے لیے وہ وقف ترمیمی بل لارہے ہیں تاکہ جو زمینیں اور جائیداد ہمارے آبا و اجداد نے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کی ہیں، ان پر قبضہ کر لیا جائے۔
اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے املاک کاتحفظ کسی بھی قیمت پر کریں،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعے اٹھائے جانے والا قدم ایک میل کا پتھر ثابت ہوگا،ہمیں اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھنا ہے جب تک حکومت اپنی اس حرکت سے باز نہ آجائے۔ جمہوریت کی بقاء کے لیے اگر جانوں کی قربانی کی ضرورت پڑے تو قوم اس کے لیے بھی تیار ہے۔میں ان تنظیموں کے امیر اور صدور حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک مستقل لائحہ عمل تیار کر کے موجودہ حکومت سے لڑنے کی ہمت دکھا ئیں، ورنہ شاید حشر میں اللہ رب العزت کے سامنے جو اب نہیں دے پائیں گے اور قوم ہمیں ذمہ دار ٹھہرائے گی کہ ان کی وجہ سے ہم ذلت کی زندگی جی کر آئے ہیں۔ لمحوں کی خاموشی صدیوں کی سزا نہ بن جائے، اپنے آپ کو سر خرو کرنے کے لیے قدم اٹھانا ضروری ہے۔