را م پنیانی
دنیا کے کئی ممالک بشمول ہندوستان میں ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کے تقریباً تمام اجزاء بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں جیسا کہ انگریزی کے موقر روزنامہ دی ہندو میں وی ڈیم کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے ۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں خاص طورپر آزادی اظہارِ خیال ، صاف و شفاف انتخابات اور مہذب سماج ؍ انجمنوں کی آزادی کا جائزہ لیا اور اپنے مشاہدات کو پیش کیا ہے اور مذکورہ تینوں کو خودمختار ممالک میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جمہوریت کے اجزاء قرار دیا ہے ۔ ان کی رپورٹ میں جمہوریت اور جمہوریت کے اجزاء کی تباہی و بربادی کا جس انداز میں جائزہ لیا گیا اس سے ہندوستان کے زمینی حقائق کا مناسب طورپر خلاصہ بھی ہوتا ہے ۔ اس کو محدود کرنے کی خاطر ہمارا ملک ہمارا وطن عزیز ہندوستان اپنی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جارہے بدترین سلوک کا مشاہدہ بھی کررہا ہے ۔ آج کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہندوستان میں اقلیتیں آزادی کے 75 برسوں میں سب سے زیادہ تعصب و جانبداری اور فرقہ پرستی کا نشانہ مودی حکومت میں بنائی جارہی ہیں اور فی الوقت وہ ( اقلیتیں ) ایک خطرناک دور سے گذر رہی ہیں۔
آر ایس ایس ۔ بی جے پی اتحاد اقلیتوں کو ڈرانے ، دھمکانے کیلئے پہلے ہی ہندو تہواروں اور اجتماعات کو ایک اور آلہ کے طورپر استعمال کرنا شروع کرچکا ہے اور ان لوگوں (آر ایس ایس ۔ بی جے پی ورکروں و حامیوں) کی اقلیت دشمنی سرگرمیوں و اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے کا مشاہدہ ہم سب نے رام نومی تقاریب کے موقع پر دیکھا ہے ۔ اس کے علاوہ ہولی کے جشن اور کمبھ میلے کے دوران بھی فرقہ پرستوں اور ان کی قبیل کی بے شمار تنظیموں نے اقلیتوں کو کس طرح ڈرایا ، دھمکایا، اُنھیں اپنے حملوں کا کیسے نشانہ بنایا اس کا بھی مشاہدہ کیا ۔ یہ لوگ مختلف بہانوں اور مختلف طریقوں سے اقلیتوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور اقلیتیں فرقہ پرستوں کے ظلم کا مسلسل نشانہ بن رہی ہیں ۔
کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اور بھارت جوڑو نیائے یاترا کے ساتھ ساتھ بعض سماجی گروپوں کے قائم کردہ پلیٹ فارموں جیسے ایدوکولو کرناٹک اور بھارت جوڑو ابھیان لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوئے اور وزیراعظم نریندر مودی سے لیکر ان کے کابینی وزراء اور پارٹی قائدین کے اُن دعوؤں کو غلط ثابت کردیا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ اب کی بار 400 پار یعنی اب کی بار بی جے پی چار سو سے زائد پارلیمانی نشستوں پر قبضہ کرے گی لیکن سارے ہندوستان نے دیکھا کہ بی جے پی کس طرح 240 نشستوں تک ہی محدود ہوگئی ( اگر کانگریس کو 130 یا اُس سے زائد نشستیں بھی حاصل ہوجاتی تو بی جے پی کا بیڑا غرق ہوجاتا اور مودی اقتدار سے محروم ہوجاتے ۔ کانگریس نے اس مرتبہ 99 حلقوں میں کامیابی حاصل کی اور ایک کامیاب امیدوار نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اس طرح اس کے کامیاب امیدواروں کی تعداد 100ہوگئی ) بہرحال اپوزیشن کے اتحاد انڈیا بلاک کی خصوصی حکمت عملی اور مودی ۔ شاہ جوڑی کے غرور و تکبر نے 400 سے زائد پارلیمانی نشست حاصل کرنے سے متعلق ان کے خواب کو چکنا چور کردیا اور انھیں اپنے اقتدار اور بقاء کو یقینی بنانے نتیش کمار اور چندرابابو نائیڈو کی شکل میں دو بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا ۔
دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انڈیا اتحاد ریاستی انتخابات میں کامیابی کیلئے مضبوط و مستحکم پلیٹ فارم بنانے سے قاصر رہا ۔ اگر وہ مطلوبہ پلیٹ فارم بنانے میں کامیاب ہوجاتا تو پھر مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلی انتخابات میں انڈیا اتحاد کو ضرور کامیابی ملتی ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہریانہ میں جہاں کانگریس کو کامیابی ملنے کی پیش قیاسی کی جارہی تھی بی جے پی کو حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی جس پر آج بھی تعجب و حیرت کا اظہار کیا جارہاہے ۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں بھی اپوزیشن جماعتوں میں عدم اتفاق ، عام آدمی پارٹی کی شکست اور بی جے پی کی تقریباً 3 دہوں بعد اقتدار پر واپسی کا باعث بنی ۔ ان ریاستی اسمبلی انتخابات میں اپوزیشن کی ناکامیوں نے آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیموں کو بی جے پی کیلئے کام کرنے کیلئے پھر اُبھارا ویسے بھی بی جے پی کیلئے آر ایس ایس اور اُس کی ذیلی تنظیموں کا کام کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن لوک سبھا انتخابات کے دوران صدر بی جے پی نڈا نے ایک بیان دیاتھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ بی جے پی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اس کا تنظیمی ڈھانچہ بہت مضبوط ہے ۔
جہاں تک انڈیا بلاک کا سوال ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مابعد لوک سبھا انتخابات INDIA اتحاد کو چاہئے تھا کہ وہ خود کو مضبوط کرتے لیکن اتحاد کے مضبوط ہونے کو بالکلیہ نظرانداز کردیا گیا ۔ ویسے بھی انڈیااتحاد میں شامل کئی جماعتیں اپنے طورپر اعلانات اور فیصلے کررہی ہیں اور اسے روکنے کیلئے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے کوئی بڑے اقدامات نہیں کئے ۔ یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ سی پی آئی ( ایم ) جو انڈیا اتحاد کا ایک اہم حصہ ہے کئی مسائل پر کانگریس سے متضاد نظریہ رکھتی ہے ،اس کے کارگذار جنرل سکریٹری پرکاش کرت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن INDIA بلاک لوک سبھا انتخابات کیلئے تشکیل دیا گیا تھا ریاستی اسمبلی انتخابات کیلئے نہیں ۔ یہ بہت ساری باتیں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے دانشور کررہے ہیں۔ بعض دانشوروں (بی جے پی حامی ) کا کہنا ہے کہ بی جے پی قطعی طورپر ایک فاشسٹ پارٹی نہیں ہے اگر دیکھا جائے تو Neo-Liberal Capitalism فاشسٹ موجودگی کا باعث بنتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں دائیں بازو کی قوتوں کو استحکام حاصل ہورہا ہے ۔ ان لوگوں کی تحریک سے دوسرے ملکوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے خلاف نفرت ، الٹرانیشنل ازم ( حد سے زیادہ قوم پرستی کے دعوے ) اور جمہوری اُصول و قواعد اور اقدار کی گراوٹ کا رجحان شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا پھر سے 1930 ء کے دور میں واپس ہورہی ہے جب فاشسٹ ریاستوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا بعد میں دنیا بھر میں فاشسٹ طاقتوں کا وجود دکھائی نہیں دیا اور اب پھر سے یہ طاقتیں زور پکڑ رہی ہیں ۔
اگرچہ ہندوتوا قوم پرستی ، نیوفاشزم ، پروٹو فاشزم اور بنیاد پرستی کی بہت سی اصطلاحات منظرعام پر لائی گئیں تاکہ ان کا اُبھرتی سیاست کیلئے استعمال کیا جائے لیکن بات یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی رجحان اپنے آپ کو اس طرح نہیں دہراتا ۔ آج ہندوتوا قوم پرستی فاشزم کی ڈھیر ساری خصوصیات کے بالکل قریب ہے اور یہ ایسی خصوصیات ہیں جنھیں آر ایس ایس کے بانیوں نے اپنی ابتدائی تحریک میں بہت زیادہ اہمیت دی ، خاص طورپر ایم ایس گولوالکر نے ۔ انھوں نے اپنی کتاب ہم اور ہماری قوم میں واضح طورپر کہا تھا کہ نسل اور اس کی ثقافت کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کیلئے جرمنی نے سامی نسلوں یعنی یہودیوں سے ملک کو پاک کرکے دنیا کو حیران کردیا ۔ یہاں پر نسل کا فخر اپنی بلند ترین سطح پر ظاہر ہوا ہے ۔ جرمنی نے یہ بھی دکھایا ہے کہ نسلوں اور ثقافتوں کا ایک جز ہوتا ہے ۔ فرقوں اور ثقافتوں کو جڑ سے اکٹھا کرنا کتنا قریب قریب ناممکن ہے ۔
واضح رہے کہ ہم ہندوستانی فاشزم کے کئی اشکال کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔ فرقہ پرستوں نے ہمیشہ سنہرے ماضی کی بات کی ۔ متحدہ ہندوستان کی خواہش کا اظہار کیا ۔ حد تو یہ ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بھی بنایا جارہا ہے ، اُنھیں ہندو قوم کے دشمنوں کے طورپر پیش کیا جارہا ہے ۔ ملک میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آمریت کا دور دورہ ہے ۔ بڑے صنعتکاروں اور صنعتی گھرانوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اظہارِ خیال کی آزادی کو ختم کیا جارہا ہے ۔