جمیعت علماء ہند کو ملی بڑی کامیابی، 4 نوجوان 19 سال بعد دہشت گردی کے الزام سے باعزت رہا

,

   

جمعیۃ علماء ہند کی بڑی کامیابی، 4 مسلم نوجوان19سال بعد دہشت گردی کےالزام سے باعزت بری الہ آباد ہائی کورٹ سے چارمسلم نوجوان 19سال بعد دہشت گردی کےالزام سے باعزت بری۔

 19 سالوں کے طویل انتظارکے بعد اتر پردیش کے شہرمظفرنگرکے 4 مسلم نوجوانوں کودہشت گردی کےالزامات سےالہ آباد ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے باعزت بری کردیا کہ استغاثہ نےدہشت گردی اورملک سے دشمنی کا مقدمہ قائم کرنےکے لئےسیکشن درکارخصوصی اجازت نامہ حاصل ہی نہیں کیا تھا اس کے باوجود سیشن عدالت نےانہیں 18 مئی 2007 کوعمرقید کی سزااورایک ایک لاکھ روپئے جرمانہ عائد کیا تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی دورکنی بینچ کے جسٹس سدھیراگروال اورجسٹس راجندرکمارنے 6 فروری 2019 کوفیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جسےگذشتہ کل ظاہرکیا گیا۔ جس وقت فیصلہ سنایاجارہا تھا جمعیۃ علماء ہند کےوکیل ایڈوکیٹ مجاہد احمد ودیگرعدالت میں موجود تھے۔

مقدمہ کا سامنا کررہےملزمین اشفاق ننھےولد عبدالرشید، غیورعلی اورسردارعلی کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزاراحمد اعظمی نے ممبئی میں آج اخبار نویسوں کوتفصیلات بتاتےہوئےکہا کہ 31 مارچ 2000 میں کاندھلہ پولس اسٹیشن (مظفرنگر)میں خفیہ جانکاری کی بنیاد پرایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس کےمطابق ملزم اشفاق ننھےکےگھرمیں چند غیرملکی پنا ہ لئے ہوئے ہیں، جن کا تعلق پاکستانی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی سے ہےاوروہ لوگ ہندوستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینا چاہتےہیں۔ ایف آئی آرکی بنیاد پرپولس نےملزمین اشفاق ننھے، محمد وارث، غیورعلی، سردارعلی اورمستقیم احمد کوگرفتارکیا اوران کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات121, 121A,122,123 فارینرزایکٹ کی دفعات  31,14 پاسپورٹ ایکٹ کی دفعہ 3 اورآرمس ایکٹ کی دفعات 25,27 کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا، تقریباً 17 سالوں تک مقدمہ کی سماعت نچلی عدالت میں چلتی رہی، جس کے بعد عدالت نے  18 مئی 2007 کواپنا فیصلہ سنایا۔ ایک جانب جہاں ملزمین غیوررشید، سردارعلی اورمشتاق مسیح اللہ کوتمام الزاما ت سے بری کردیا وہیں ملزمین اشفاق ننھے اورمحمد وارث کوعمر قید کی سزا اورایک ایک لاکھ روپئے جرمانہ عائد کیا تھا۔

صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے اس فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئےاسے سچائی اورانصاف کی جیت قراردیا۔ انہوں نےکہا کہ جس طرح 19 برس کےطویل انتظارکےبعد انصاف ملاہے، وہ اس انگریزی کہاوت کوسچ کردکھا تاہےکہ انصاف میں تاخیرانصاف سے انکارہے، افسوس کی بات تویہ ہے کہ اس پرنہ توملک کا میڈیا کچھ کہہ رہا ہےاورنہ ہی وہ دانشورطبقہ ہی کوئی تبصرہ کرتا ہے، جوسیکولرازم کی قسمیں کھاتا ہے، 19 برس کا مطلب یہ ہےکہ آپ نےایک شخص کی زندگی کےانتہائی قیمتی ماہ اورسال تباہ کردیئے۔ بلاشبہ انصاف ملا اورفرقہ پرست ایجنسیوں کا جھوٹ ایک بارپھرطشت ازبام ہوگیا، لیکن کیا اس انصاف سےلوگوں کی زندگی کےتباہ ہوئے ماہ وسال واپس لوٹائے جاسکتے ہیں؟ مولانا مدنی نےکہا کہ یہ اہم مسئلہ ہے، آج کچھ لوگ باعزت بری ہوئے ہیں کل مزید کچھ لوگوں کو ایجنسیاں جھوٹے الزام میں سلاخوں کے پیچھے پہنچادیں گی اوریہ مذموم سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس طرح کب تک بے گناہوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہوتا رہےگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک پولس اورایجنسیوں کی جواب دہی طے نہیں ہوگی اورجب تک بے گناہوں کی زندگیاں تباہ کرنے والےافسران کوسزانہیں دی جاتی ہےاسی طرح لوگ گرفتاراوررہا ہوتے رہیں گے۔

مولانا ارشد مدنی نےکہا کہ بے قصورمسلمانوں کی زندگی سےکھلواڑکرنےوالےآخرکہا ں ہیں؟، ان کے چہروں سےاب نقاب اٹھانا ضروری ہے یہ صورت حال ملک میں مسلم اقلیتوں کےلئے بےحدپریشان کن ہے، لیکن ہمیں امید ہےکہ آج نہیں توکل حالات بدلیں گے، اب وقت آگیا ہےکہ سپریم کورٹ کواس پرازخود سوموٹونوٹس لینا چاہئے، ایسے معاملات میں ذمہ دار پولس افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور برسوں تک جیل میں بند رہ کر اپنی زندگی تباہ کرچکے بے قصوروں کومعاوضہ بھی اداکیا جائے۔ مولانا ارشد مدنی نےآخرمیں کہا کہ فرقہ پرست انتظامیہ اورمتعصب افسران کی ظلم وزیادتیوں کےخلاف اگرکوئی امید کی کرن نظرآتی ہےتوعدالتیں ہی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جوکام حکومتوں کا تھا اب وہ عدالتیں کررہی ہیں۔

گلزاراحمد اعظمی نےکہا کہ ملزمین نے نچلی عدالت میں اپنا مقدمہ خود لڑا تھا اورہائی کورٹ میں بھی اپیل داخل کی تھی، لیکن جب 10 سال کا طویل عرصہ گزر جانےکے بعد بھی ان کےمقدمہ کی سماعت نہیں ہوئی توانہوں نےصدرجمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کوخط لکھ کران سےقانونی امدا د طلب کی، جس کےبعد ملزمین کےدفاع میں دہلی کےوکلاء ایڈوکیٹ عارف علی اورایڈوکیٹ مجاہد احمد کومقررکیا گیا، جنہوں نے دہلی سےالہ آباد جاکرسب سے پہلےعدالتی ریکارڈ کا معائنہ کیا جس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ نچلی عدالت نے ملزمین کو جوسزا دی ہے، وہ غیرآئینی ہےکیونکہ استغاثہ نے خصوصی اجازت نامہ کے بغیرہی ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کردیا۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے جہاں ملزمین کوباعزت بری کردیا وہیں نچلی عدالت سےبری ہونے والےملزمین کےخلاف داخل اترپردیش حکومت کی اپیل کوبھی خارج کردیا۔

جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نےسب سے پہلےالہ آباد ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی کہ 10 سال کا طویل عرصہ گذرجانےکےباوجود ملزمین کی اپیلوں پر سماعت شروع نہیں ہوسکی، لہٰذا اس پرسماعت شروع کی جائے یا انہیں ضمانت پررہا کیا جائے۔ ملزمین کی ضمانت پررہائی تونہیں ہوسکی، لیکن عدالت نے حتمی بحث کی سماعت کی اوریہ فیصلہ سنایا کہ نچلی عدالت کا فیصلہ قانوناً درست نہیں ہےکیونکہ سیکشن کے بغیرہی مقدمہ کی سماعت ہوئی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نےایک جانب جہاں ملزمین کوباعزت بری کردیا وہیں نچلی عدالت سےبری ہونے والےملزمین کےخلاف داخل اترپردیش حکومت کی اپیل کوبھی خارج کردیا۔ اس معاملے میں جمعیۃ علماء نے ملزمین اشفاق ننھے، غیوراورسردارعلی کو قانونی امداد فراہم کی تھی۔ گلزاراعظمی نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جمعیۃ علماء کے وکلاء کی مخلصانہ کوششوں سےیکے بعد دیگرے مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزامات سے باعزت بری ہوتےجارہے ہیں، گذشتہ تین سالوں میں جمعیۃ علماء ہند نےدرجنوں مسلم نوجوانو ں کے مقدمات ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ سے فیصل کروائے جس میں انہیں کامیابی ملی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردانہ معاملات فیصل ہونےمیں تاخیرہوتی ہے، لیکن اگرجلد بازی سےکام نہ لیتےہوئےکافی غوروفکرکےساتھ مقدمہ کی پیروی کی جائےتواسکا خاطرخواہ فائدہ ملزمین کوحاصل ہوتا ہے۔