جنوبی ریاستوں سے مرکز کا سوتیلا پن

   

روش کمار

آج کل جنوبی ہند کی ریاستوں میں اس بات کو لیکر ناراضگی پائی جاتی ہے کہ مرکزی حکومت ان کے ساتھ سوتیلا پن کا سلوک روا رکھے ہوئے ہے اور شمالی ہند کی ریاستیں ان کے ٹیکس کا بڑا حصہ ہڑپ رہی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی مرکز ، ریاستوں کیلئے مختص یا انہیں دیئے جانے والے فنڈس بھی جاری کرنے سے گریز کررہا ہے نتیجہ میں وہ فنڈس کی قلت کا شکار ہیں اور اپنی اپنی ریاستوں میں عوامی بہبود کی اسکیمات پر عمل آوری میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ ٹیکس ہو یا مرکزی اسکیمات میں حصہ داری اسے لیکر آخر جنوبی ریاستیں کیوں ناراض ہیں ۔ کیا صرف جنوبی ہند کی ریاستیں ناراض ہیں ؟ پنجاب ، مغربی بنگال ، بہار ، جھارکھنڈ ان تمام نے بھی اپنے اپنے طور پر سوال اُٹھائے ہیں کہ انہیں ان کا حق نہیں مل رہا ہے۔ دہلی میں کرناٹک نے اس ضمن میں زبردست احتجاج کیا اور حکومت کیرالا نے بھی تشویش کا اظہار کیا کہ مرکزی حکومت اسے اس کا حق دینے سے گریز کررہی ہے ۔ حکومت کیرالا بھی دہلی میں ہی مرکز کے خلاف مختلف انداز میں احتجاج کررہی ہے ۔ دہلی کے جنتر منتر پر کرناٹک حکومت کا زبردست احتجاج منظم ہوا ۔ ٹاملناڈو کی ایم کے اسٹالن حکومت نے کیرالا اور کرناٹک حکومتوں کے مطالبات کی بھرپور تائید و حمایت کی ہے ۔ کیرالا کا کہنا ہیکہ وہ بھی احتجاجی مظاہرہ میں حصہ لیں گے ۔ پیسے کی یہ تقسیم مرکز اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کیسے ہیں اسے بھی واضح کررہی ہے۔ جی ایس ٹی کمیشن کی میٹنگ ہو یا تمام معاملے ان سے متعلق خبروں کا جائزہ لینے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستوں کو مجبور و بے بس کردیا گیا ہے انہیں مانگنے یا ہاتھ پھیلانے والے کی حالت میں پہچادیا ہے وہ ہمیشہ مانگ رہے ہیں اور مرکز کے رحم و کرم پر انحصار کئے ہوئے ہیں کہ ریاستوں کو پیسے ملیں گے یا نہیں ایک اور بات ہے مرکز زیادہ سے زیادہ فنڈ اپنے پاس رکھ کر تمام اسکیمات پر اپنی مہر لگوانا چاہتی ہے ۔ اپنے حساب سے اسکیمات کو طئے کرنا چاہتی ہے اس کی بھی لڑائی کا اثر ریاستوں کی معاشی حالت پر پڑرہا ہے ۔ کیا ریاستوں سے پیسے لیکر مرکز زیادہ حصہ اپنے ہی پاس رکھ رہا ہے یا ریاستوں کو ان کے حق اور ضرورتوں کے حساب سے دے رہا ہے یہ موضوع ایک ریاست کو زیادہ دینے اور ایک ریاست کو کم دینے کا بھی ہے یا تمام سے پیسے لیکر مرکز کی طرف سے اپنے پاس زیادہ حصہ رکھنے کا ہے ۔ دہلی کے جنتر منتر پر کرناٹک کے چیف منسٹر سدارامیا اور سو سے زائد قائدین نے دھرنا دیا ۔ اس دھرنا میں شامل ہونے کیلئے چیف منسٹر سدارامیا نے ارکان اسمبلی کو بھی مکتوب لکھا جن میں بی جے پی کے بھی ارکان پارلیمنٹ ہے ۔ کرناٹک اور کیرالا کے چیف منسٹروں کا ایک ہی مطالبہ ہیکہ مرکزی اسکیمات میں ریاستوں کی حصہ داری جو کم کی جارہی ہے اس کا سلسلہ روکا جائے ۔ مرکز کی اس طرح کی روش سے ان کے مفادات کو نقصان ہورہا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کرناٹک کو کیوں لگ رہا ہے کہ پچھلے پانچ سال میں مرکزی اسکیمات اور بجٹ میں اس کی حصہ داری گھٹ گئی ہے رپورٹرس کلکٹیو کی یہ رپورٹ بہت کم جگہ شائع ہوئی ہے مگر اس کے پڑھنے کے بعد کرناٹک کی مانگ کو آپ اور بہتر طریقہ سے سمجھ سکتے ہیں ۔ کیا جنوبی ریاستیں یہ سوال اُٹھارہی ہیں ؟ کیوں گودی میڈیا اسے بھی جنوبی ہند ریاستیں بمقابلہ شمالی ہند ریاستیں بنانے میں مصروف ہے ؟۔ ٹی ایم سی نے کہا کہ منریگا جن مزدوروں کو اجرت نہیں ملی ہے ان کے 50 لاکھ مکتوب مرکز کو دیئے جائیں گے ۔ جنتر منتر پر دہلی پولیس نے احتجاجی مظاہرین کے اردگرد رکاوٹیں کھڑی کی اور گاندھی جنتی کے دن راج گھاٹ پر دو گھنٹے دھرنا کے بعد انہیں وہاں سے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہٹادیا گیا ۔ بنگال کی یہ لڑائی صرف خانہ پری کی نہیں ہے مرکز سے صرف مانگ کی نہیں ہے بلکہ TMC نے باقاعدہ یہ بتایا ہیکہ مرکز سے پیسے مانگنے کیلئے کس کس سطح پر ممتا بنرجی نے کوششیں کی ہیں تب بھی پیسے نہیں ملے ۔ ممتا بنرجی نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات بھی کی ۔ 25 ماہ سے مرکز نے ریاست کو دیئے جانے والے فنڈس روک رکھے ہیں ۔ اکٹوبر 2023 سے جنوری آگئی جب کچھ نہیں ہوا تو ممتا بنرجی اس بار دہلی نہیں آئیں مگر کولکتہ میں بڑے پیمانہ پر احتجاجی دھرنا منظم کیا گیا ۔ ممتا حکومت نے کئی اسکیمات کے بارے میں الزامات عائد کئے ہیں کہ مرکزی حکومت پیسے نہیں دے رہی ہے ۔ پی ایم او اس یوجنا کیلئے 7000 کروڑ روپئے نہیں ملے کیونکہ ممتا سرکار نے راشن کی دکانات پر پی ایم کی تصاویر اور مرکزی محکمہ کے لوگو کی تصویر نہیں لگائی گئی یہ بتایا گیا اس پیسے سے مرکز کی اسکیمات کیلئے بنگال سے چاول کی خرید کی جانی تھی ۔ ریاستی حکومت نے ابھی تک جو دھان کی خرید کی ہے اس کا پیسہ بھی مرکزی حکومت سے نہیں آیا ۔ تھک ہار کر ممتا بنرجی نے 2 فبروری کو کہا کہ اگر مرکز سے پیسے نہیں آئیں گے تو ریاستی حکومت 21 لاکھ مزدوروں کے کھاتے میں پیسے جمع کرادے گی ۔ ترنمول ایم پی ڈیرک اوبرائن نے اس بات پر بیان دیا کہ بی جے پی Fiscal Federal Terrorism چلارہی ہے ۔ جھارکھنڈ کے سابق چیف منسٹر ہینمنت سورین نے بھی بار بار مرکز سے ریاست کے حصہ کی مانگ کی ہے کہا کہ مرکز کی کمپنیوں پر ریاست کے ایک لاکھ 36 ہزار کروڑ روپیہ باقی ہے ۔ اس کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے ان کے اور بھی بیان ہیں کہ ریاست میں وزیراعظم آواس یوجنا کے اہل لوگوں کو پیسے نہیں دیئے جارہے ہیں ۔ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار بھی اس طرح کی باتیں کئی بار کرچکے ہیں ۔ پرانی خبریں نکال کر دیکھئے ۔ ستمبر 2015 میں نتیش کمار نے اس وقت کے وزیر ارون جیٹلی کو مکتوب لکھا کہ بہار کو مرکزی حکومت سے جتنا پیسہ ملنا چاہئے اس سے کم ملتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 14 ویں منصوبہ بندی کمیشن کی سفارش پر ریاست کو مرکز سے ملنے والی رقم میں گراوٹ آئی ہے اس مکتوب میں ایک ماہ بعد ایک انتخابی ریالی کے دوران وزیراعظم مودی نے کہہ دیا تھا کہ نتیش کمار مغرور ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ ان کی حکومت بہار کی ترقی کیلئے دیئے گئے فنڈ س کا استعمال کرتی ہے اس حکومت کو ایک بھی روپیہ نہیں ملنا چاہئے ۔ ریاستوں کے حساب سے دیکھیں تو مرکز کو ٹیکس دینے والوں میں مہاراشٹرا ، دہلی ، ٹاملناڈو کا سب سے بڑا حصہ ہے ۔ یہ اعداد و شمار مرکزی حکومت نے خود ڈسمبر 2023 میں راجیہ سبھا میں دیئے ۔ اس میں بھی مہاراشٹرا دوسری ریاستوں سے 3 گنا زیادہ ٹیکس دیتا ہے ۔ ٹاملناڈو مرکزی حکومت کو ایک روپیہ دیتا ہے جس میں سے اسے 29 پیسے واپس ملتے ہیں ۔ لیکن اترپردیش ایک روپیہ مرکز کو دیتا ہے تو اسے واپس ملتے ہیں دو روپئے 73 پیسے ، بہار مرکز کو ایک روپیہ دیتا ہے تو مرکز اسے سات روپئے ، پیسے کی شکل میں واپس کرتا ہے ۔ پھر بھی بہار کی شکایت رہتی ہے کہ اسے جتنی رقم ملنی چاہئے وہ رقم نہیں ملتی اسے خصوصی ریاست کا درجہ ملنا چاہئے ۔ مہاراشٹرا کا حال دیکھئے وہ مرکز کو ایک وپیہ دیتا ہے تو 8 پیسے واپس ملتے ہیں یہ کیوں ہوا ؟ دراصل پیسہ کی تقسیم کا ایک برا حصہ آبادی کی بنیاد پر دیا جاتا تھا ۔ اس میں تبدیلی کردی گئی ۔ 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر پیسہ تقسیم ہورہا تھا لیکن اب اس کی جگہ 2011 کی مردم شماری کو بنیاد بنادیا گیا ۔ اس کے بعد بھارت میں مردم شماری نہیں ہوئی ہے جو اب تک ہوجانی چاہئے تھی ۔ اس پر میڈیا کبھی بھی حکومت سے سوال نہیں کرتا ۔ منی کنٹرول کی ویب سائیٹ پر اریدھیاچٹرجی نے آسان طریقہ سے سمجھایا ہے انہوں نے لکھا ہیکہ یو پی کی آبادی 2001 سے 2011 کے درمیان 20 فیصد کے حساب سے بڑھتی ہے جبکہ کرناٹک کی آبادی 15.60 فیصد کے حساب سے بڑھتی ہے اگر نیتی آیوگ 1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر پیسے کی تقسیم کرتا ہے تو حالت بدل جاتے ہیں تب یو پی اور کرناٹک کے درمیان آبادی میں اضافہ میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔ اسی طرح سے بہار کی آبادی 2001 سے 2011 کے درمیان 25 فیصد کے حساب سے بڑھتی ہے جبکہ ٹاملناڈو میں آبادی میں اضافہ کی شرح 15 فیصد سے کچھ زیادہ تھی تو اس حساب سے بہار کو زیادہ فنڈ ملے گا اور ٹاملناڈو کو کم ۔15 ویں نیتی آیوگ نے بھی کہا کہ ہیکہ جن ریاستوں میں فی کس اوسط آمدنی سب سے کم ہے وہاں آبادی زیادہ ہے ۔ کیا ایسا ہے کہ بہار کو اس کی غریبی کی وجہ سے زیادہ پیسہ مل رہا ہے تب ہی بحث بہار میں ہونی چاہئے کہ بہار کب خود مکتفی ہوگا ۔اس کی معاشی حالت ایسی کیوں ہے صرف جنوب کو نشانہ بنانے سے کام نہیں چلے گا ۔ کرناٹک ، کیرالا اور ٹاملناڈو کا کہنا ہیکہ انہوں نے اچھی ترقی کی اچھا کام کیا ۔ تب ہی زیادہ ٹیکس مرکز کو بھیجتے ہیں مگر انہیں اتنا کم پیسہ واپسی میں ملتا ہے جبکہ یو پی ، بہار جو ٹیکس دیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ پیسہ انہیں ملتا ہے اب اس سوال کو آپ صرف شمال بنام جنوب کی بحث میں نہیں سمٹ سکتے ۔ شمالی ریاستوں سے پوچھنا ہوگا کہ آپ نے ترقی کیوں نہیں کی ؟ یہ بحث شمالی ہند کی ریاستوں میں نئی سیاست اور سوچ کو بھی پیدا کرسکتی ہے ۔ کرناٹک کے چیف منسٹر سدارامیا کا کہنا ہے کہ پہلے مرکز سے کرناٹک کو 4.72 فیصد ملتا تھا ۔ اسے گھٹاکر3.64 فیصد کردیا گیا اس سے ریاست کو 60 ہزار کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ۔ مرکز سے ریاست کی اسکیمات کیلئے 20 ہزار کروڑ روپئے ملے تھے اب سے گھٹاکر 13 ہزار کروڑ روپئے کردیا گیا ہے ۔ ریاست نے خشک سالی اُسے راحت کیلئے 18 ہزار کروڑروپئے مرکز سے مانگے لیکن ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا ۔ 15 ویں نیتی ایوگ نے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار کروڑ کے فنڈس دینے کی سفارش کی تھی لیکن ایک نیا پیسہ نہیں ملا ۔ اس طرح کرناٹک کو پچھلے 5 سال میں ایک لاکھ 87 ہزار کرور کا نقصان ہوا ہے یہ ریاست کا کہنا ہے۔ ان ہی مطالبات کو لیکر کرناٹک کی پوری حکومت ارکان پارلیمان ارکان اسمبلی جنتر منتر پر آئے اور دھرنا دیا ۔ سدارامیا کا کہنا ہے کہ مہاراشٹرا کے بعد کرناٹک ٹیکس دینے والی دوسری بڑی ریاست ہے آبادی کم ہونے اور ترقی زیادہ کرنے کی ہمیں سزا نہیں دینی چاہئے ۔