جنوبی ہندوستان میں اردو صحافت

   

پروفیسر احتشام احمد خاں
اردو صحافت، جو 1882میں ہری ہر دت کے پہلے اردو اخبار ’ جام جہاں نما ‘ کے باوصف صحافتی افق پر نمودار ہوئی، کا ایک روشن ماضی رہا ہے۔ ہندوستان کے دیگر حصوں کے مقابلے میں جنوب میں اس وراثت کو کافی حد تک اب بھی آگے بڑھا نے کا کام شدو مد سے جاری و ساری ہے۔ حیدر آباد سے اردو اخبارات کی ایک اچھی خاصی تعداد شائع ہوتی ہے جس میں روز نامہ سیاست، روز نامہ منصف ، اعتماد اور رہنمائے دکن قابل ذکر ہیں۔
ملک کی تمام ریاستوں میں غیر منقسم آندھرا پردیش میں سال 2006میں ہندوستان کی تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ 506 تسلیم شدہ اردو اخبارات شائع ہوتے تھے۔ اُس وقت ممبئی میں روز نامہ انقلاب اور اردو ٹائمز سمیت کئی اردو اشاعتیں بھی تھیں ۔ مغربی بنگال، خاص طور پر کلکتہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں اردو اخبارات شائع ہو رہے تھے۔حیدرآباد سے تعلق رکھنے والا سیاست پہلا اردو اخبار ہے جس نے 90 کی دہائی کے آخر میں ویب ایڈیشن شروع کیا۔ دہلی اور شمالی ہند کی ریاستوں جیسے اتر پردیش اور بہار کے علاوہ آندھرا پردیش میں بھی اردو پریس کو فروغ دینے کی روایت اب بھی برقرار ہے تاہم حیدرآباد اردو اخبارات کے حوالے سے ایک بڑا اشاعتی مرکز کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔
1980 کے بعد اردو اخبارات کی اشاعت اور قارئین کی تعداد میں بتدریج کمی ہونے لگی اور اس وجہ سے کئی اخبارات کی اشاعت بند ہو گئی تاہم نئی صدی کے پہلے عشرے میں، اردو میڈیا نے ایک نئی سمت طے کرتے ہوئے کئی نئے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں کو صحافتی میدان میں آگے بڑھنے کا راستہ ہموارکیا۔
جنوبی ہند جو کہ ہندوستان کی تقریباً 20 فیصد آبادی پر مشتمل ہے، اردو صحافت میں ایک نمایاں کردارادا کررہا ہے۔ 1886 تک ہندوستان میں 1094 پریس تھے جن میں سے 200 جنوب میں قائم تھے۔ ماضی میں اردو صحافت کا مقصد نہ صرف سیاسی ، سماجی اور خواندگی کو بڑھاوا دینا تھا بلکہ اس میں بنیادی طور پر مغربی سائنس اور طب کی خصوصیات کو اجاگرکرنا مقصود تھا۔ چناں چہ اسی طرح اردو صحافت کی بنیاد سب سے پہلے طب اور سائنس پر رکھی گئی۔ حیدرآباد میں پرنٹ کلچر کا آغاز جدید اور سائنسی تعلیمی سرگرمیوں سے ہوا۔ طب پر پہلا اردو رسالہ طبابت 1857 میں آصف جاہی کے دور میں شائع ہوا۔ اس کے مدیر جارج اسمتھ تھے اور اس میں یونانی و مغربی طب کے مضامین اردو میں شائع ہوتے تھے۔
حیدرآباد میں پرنٹنگ پریس کا اسی ریاست کے پائیگاہ خاندان سے گہرا تعلق ہے جو آصف جاہی دور میں اس کے ساتھ منسلک تھا۔ عبدالفتح خان پہلے پائیگاہ رئیس تھے، جو فخر الدین خان کے والد تھے، نے ایک اکیڈمی اور ایک پرنٹنگ پریس کا قیام عمل میں لایا ، جہاں بنیادی طور پر سائنس اور ریاضی پر کتابیں اسکالرز کی جانب سے لکھی (یا غیر ملکی زبانوں سے ترجمہ کی گئیں) اور شائع کی جاتی تھیں۔ فخرالدین خان یورپ کی سائنسی اور تکنیکی ترقی سے باخبر تھے۔ انہوں نے انگلستان، فرانس اور دیگر جگہوں سے سائنس، ریاضی اور ٹیکنالوجی جیسے موضوعات پر کتابیں منگوائیں اور ان کا نہ صرف اردو اور فارسی جیسی درباری زبانوں میں ترجمہ کرایا بلکہ اپنے پریس میں بھی چھاپ کر لوگوں کے لیے بھی دستیاب رکھیں۔
انوارالحق جعفری لکھتے ہیں کہ’’ دکن میں اردو صحافت 19ویں صدی کی آخری سہ ماہی میں پروان چڑھی ۔‘‘ ان کے مطابق ’خورشید دکن‘ حیدرآباد کا پہلا اخبار تھا جس نے 1883ء میں سلطان محمد دہلوی کی ادارت میں اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔واضح رہے کہ دکن کے اخبارات اردو صحافت کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے تھے۔
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ابلاغیات کے اسکالر ارشد کا کہنا ہے کہ ’علم وعمل‘ تیسرا روزنامہ تھا جسے محب حسین نے 1902 میں منظر عام پر لایا، اس روزنامے کی اشاعت سے پہلے 14 اخبارات اور رسائل تھے جو 1901 تک شائع ہوتے رہے،ان میں سے 12 اردو میں اور 2 مراٹھی میں شائع ہوتے تھے۔
حیدرآباد میں اخبارات کی اشاعت کے آغاز سے لے کر 1918 تک اور ریاست کی تشکیل سے قبل یہاں کی کانگریس اور مجلس اتحاد المسلمین جیسی جماعتیں تمام اخبارات میں اصلاحی مواد پیش کررہے تھے۔ برطانوی ہندوستان کی قومی تحریک حیدرآباد میں آئی اور اُس نے ریاست کا سیاسی چہرہ بدل دیا۔ صبح دکن اور نظام گزٹ ریاست کے اہم اخبارات تھے۔ حکیم غفران احمد انصاری ہمیشہ پریس سے وابستہ رہے، انہوں نے سید نورالحق جعفری کی ادارت میں ’مجلس، اذان اور چارمینار‘ شائع کیے۔ایم این نرسنگا راؤ ایک سیاست دان اور صحافی تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کو عام کرنے کے لیے 1928 میں ایک اخبار ’رعیت‘ نکالنا شروع کیا۔ حکومت نے اس اخبار کے خلاف سخت کارروائی کی اور اس کی اشاعت پر پابندی عائد کی۔نامور صحافی عبدالرحمن رئیس نے 1929 میں ’منصور‘ اور بعد ازاں ’وقف‘ شائع کیا۔ بہت سے سارے ادبا ء نے ان کے ساتھ تعاون کیا اور ان کے اخبارات بہت مشہور ہوئے۔ 1930 میں احمد اللہ قادری نے ’سلطنت‘ شائع کرنا شروع کیا جو سیاست سے پاک و صاف رہا اور یہ اخبار فرمان اور نظام کے لکھے ہوئے اشعار شائع کرتا تھا۔
قاضی عبدالغفار نے ’پیام‘ کا آغاز 1935 میں کیا۔ اس کی اشاعت سے اردو صحافت نے اعلیٰ معیار حاصل کیا۔یہ اخبار ادبی ذوق پر کھرا اترتا تھا اور اس میںمقامی، علاقائی، قومی اور بین الاقوامی معاملات سے متعلق آگاہی حاصل کی جاتی تھی ، ساتھ ہی اس نے ترقی پسند نظریات کی حمایت کی۔ ایک طرف ریاستی اصلاحی انجمن اور ریاستی کانگریس کا قیام اور دوسری طرف بہادر یار جنگ کی قیادت میں مجلس کی سیاسی سرگرمیوں نے حیدرآباد کے صحافتی رجحانات پر اپنا سیاسی اور ثقافتی اثر ڈالا۔
’اتحاد‘ 1947 کے سیاسی بحران کا شاخسانہ تھا۔ عبدالقادر ہاشمی اور سلطان بن عمر اس کے مدیر ان تھے جو کہ مجلس کا سرکاری ادارہ تھا۔ مظہر علی کامل ابتدا میں اس کے سرپرست رہے بعد میں یہ قاسم رضوی کی سرپرستی میں شائع ہوا جنہوں نے حیدرآباد میںرضا کار تحریک کووسعت بخشی،وہ ہفتہ وار ’البلاغ‘ بھی نکالتے تھے۔ ہاشمی کے بعد سلطان بن عمر اس کے ایڈیٹر بنے۔ ’امروز‘ ایک قوم پرست اخبار تھا، یہ 1948 میں شائع ہوا اور اس کے ایڈیر شعیب اللہ تھے جنہیں کانگریس پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ’مشیر دکن‘ اور ’علم وعمل‘ کے ابتدائی دور میں عوام میں کچھ صحت مند ادبی رجحانات پیدا ہوئے۔اس دور کو تشکیلی اور اصلاحی دونوں نام دینا حق بجانب ہے کیونکہ اس وقت پریس آہستہ آہستہ اپنی ساکھ قائم کر رہا تھا۔
اردو صحافت کے دوسرے دور میں جتنے دانشوروں و صحافیوں نے اپنا کیریئر شروع کیا ان سب کا تعلق عثمانیہ سے تھا۔ 1945-1948کے درمیان کچھ صحافی نظام کی بالادستی چاہتے تھے تو کچھ مجلس (مجلس اتحاد المسلمین)کے حمایتی تھے۔ کچھ ترقی پسند تو باقی قوم پرست نظریہ کے حامل تھے۔1935-1948 کے عرصے میں پریس اور صحافت بہت فعال تھے اس دور کے اخبارات میں متنوع خیالات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہوتے تھے۔
اخبارات کا پہلا گروپ جو موجودہ حکمرانی کی بھرپور حمایت کر رہا تھا وہ ’نظام گزٹ‘ اور ’صبح دکن‘ تھے اُس وقت اگرچہ ہر اخبار کو نظام کا ’’فرمان‘‘ (شاہی حکم) من و عن شائع کرنا پڑ تا تھا اور یہ دونوں اخبارات شاہی احکامات کے مستند ذرائع تصور کئے جاتے تھے جبکہ اخبارات کا دوسرا گروپ رہبر دکن، مجلس، اتحاد اور آغاز مجلس کی حمایت میں آگے آگے تھے۔ ان اخبارات کی پالیسیوں میں نظام دکن کو مسلمانوں کے مفادات اور تحفظ کا حامی سمجھا جا تاتھا اور جو کہ آزاد حیدرآباد کی پالیسی پر عمل پیرا تھاجبکہ ریاست، پیام، وقت اور امروز جیسے اخبارات کا تیسرا گروپ آئینی اور ذمہ دار حکومت کے لیے سعی کر رہا تھااور اُن میں قوم پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ’پیام‘ نے جدید نظریات کو فروغ دیا اور ریاست میں کمیونسٹوں کی بنیاد رکھی۔