۔150 کروڑ روپئے کی معاملت ،ملک کے 42 مقامات پر انکم ٹیکس دھاوے ، ناموں کے انکشاف سے گریز
حیدرآباد۔13 نومبر(سیاست نیوز) جنوبی ہند کے علاوہ ملک کے 42 مقامات پر محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے گذشتہ دنوں حوالہ کے معاملات کے سلسلہ میں دھاوے کئے گئے اور اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیت 150 کروڑ کے حوالہ معاملات میں ملوث ہے اسی لئے حیدرآباد کے علاوہ پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں کئی مقامات پر دھاوے کئے گئے لیکن اب تک محکمہ کی جانب سے اس بات کا انکشاف نہیں کیا گیا کہ وہ اہم سرکردہ شخصیت کو ہے جس نے حوالہ کے ذریعہ 150 کروڑ روپئے کی رقم جنوبی ہند کی ریاستوں میں ادا کی ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ انکم ٹیکس کی جانب سے اس انکشاف کے بعد سیاسی‘ تجارتی اور دیگر حلقوں میں اس بات کو جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کون سرکردہ شخصیت ہے جس تک انکم ٹیکس کے عہدیداروں کی رسائی ہوچکی ہے اور اس کیلئے 42 مقامات پر دھاوے کئے جاچکے ہیں لیکن اب تک اس کا نام منظر عام پر نہیں آیا۔بتایاجاتاہے کہ ملک کے کئی مقامات بالخصوص دہلی ‘ جھارکھنڈ‘ اترپردیش ‘ مہاراشٹرا‘ مغربی بنگال اور بہار کے علاوہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں بھی محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے دھاوے کئے گئے ہیں اور کہا جا رہاہے کہ مذکورہ شخصیت کا تعلق جنوبی ہند سے ہی ہے اور باوثوق ذرائع کے مطابق ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والی شخصیت پر محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے کی جارہی اس کاروائی کو خفیہ رکھا جا رہا ہے کیونکہ کاروائی کے دوران اس سرکردہ شخصیت کے کاروائی پر اثر انداز ہونے کا گمان ہے ۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ ریاست آندھرا پردیش کے بعض مقامات پر انکم ٹیکس کے دھاؤوں کے سبب یہ کہا جا رہاہے کہ یہ حوالہ کا کاروبار کسی سیاسی قائد کا ہے اور جب تک محکمہ انکم ٹیکس اس کی تہہ تک نہیں پہنچتی اس وقت تک یہ کہنا دشوار ہے کہ مذکورہ شخص کے نام کا انکشاف کیا جائے گا یا کسی دباؤ کے ذریعہ کوئی معاہدہ کرلیا جائے گا۔مرکزی حکومت کی جانب سے سی بی آئی ‘ ای ڈی اور انکم ٹیکس کے علاوہ دیگر ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو خوفزدہ کرنے کے الزامات کے دوران 42 مقامات پر کاروائی اور ایک ہی شخص کے لئے کی جانے والی کاروائی کے باوجود بھی اس شخص کے نام کا انکشاف نہ کیا جانا شکوک میں مبتلاء کرنے کا موجب بنتا جارہا ہے اور کہا جا رہاہے کہ حوالہ کے ذریعہ 150 کروڑ کی منتقلی کی تفصیلات کا انکشاف کرنے کے باوجود بھی کرنے والے کے نام کو مخفی رکھا جانا تمام گوشوں کے لئے حیرت کا سبب بنا ہوا ہے۔