جنگوں کے بھی اُصول ہونے چاہئے

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

بنی نوع انسان کی ابتداء سے ہزاروں سال گذرچکے ہیں ، بے شمار صدیاں گذر چکی ہیں اور اس بات کے متعدد دعوؤں کے باوجود کہ Home Sapiens ( انسان ) اس کرہ ارض یا سیاروں پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور سب سے ذہین و فطین جاندار ہے مجھے ڈر ہے کہ ہم اصلی NEAN DERTHALS ( ہزاروں سال پہلے کے عجیب الخلقت انسان) سے مختلف نہیں ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنی برتری کیلئے اصول و قوانین کے بغیر جنگیں لڑیں اور آج ہم بھی ایسی جنگیں لڑ رہے ہیں جن میں کسی قانون کسی اُصول اور کسی قاعدے کی کوئی پاسداری نہیں کرتے بلکہ تمام عالمی قوانین اور اُصولوں کی دھجیاں اُڑاتے ہیں اور صرف پنے مفادات کی تکمیل کیلئے انسانیت کو شرمسار کرتے ہیں ۔
کیا انسانی تاریخ میں کبھی بھی جنگوں کے اُصول تھے ؟
نیننی ماپار کی کمپوزڈ کردہ ایک نظم ( جو تقریباً 200 قبل مسیح میں لکھی گئی تھی ) تمل باشندوں کے درمیان جنگ کے بنیادی اُصول بیان کرتے دکھائی دیتی ہے ۔ اس میں جو اُصول بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک اچھا اُصول جنگ کرنے کا ارادہ رکھنے والا جنگجو بادشاہ جنگ سے متعلق پیشگی انتباہ جاری کرے گا ۔ مذکورہ تمل نظم کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے : ’’جانوروں ( گائیوں ) شریف النفس مذہبی پجاریوں ، خواتین اور بیماروں جن کی آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے کوئی اولاد نہیں ہے ہم اُنھیں بتائے دیتے ہیں کہ ہماری تیروں کا ہدف بڑی تیزی سے چلے گا اس لئے اپنی محفوظ جگہوں کی طرف جانے میں جلدی کریں ‘‘ ۔
دورِ قدیم میں جو جنگیں ہوا کرتی تھی ان میں دونوں مخالف فوجیں میدان جنگ میں آمنے سامنے آجاتی اور پھر سورج طلوع ہونے سے لیکر سورج کے غروب ہونے تک میدان جنگ گرم رہتا ۔ ہمارے ملک کے عظیم شاعر کلپن جنھوں نے ٹمل زبان میں رامائنا لکھی ہے ان کے مطابق جس وقت رام اور راون کے درمیان جنگ ہوئی اور راون کی شکست یقینی ہوگئی تھی تب کہا جاتا ہے کہ رام نے راون سے کہا آج تم جاسکتے ہو اور کل میدان جنگ میں واپس آؤ ۔ آج ہمارے سامنے روس ۔ یوکرین جنگ اور اسرائیل ۔ حماس کے درمیان جاری دو جنگیں ہیں اور ان دونوں جنگوں میں جو کچھ ہورہا ہے انسانیت کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے اسے دیکھ کر ہم یہی کہہ سکتے ہیں یہ انتہائی ظالمانہ سفاکانہ ہے جن میں انسانوں پر بم برسائے جارہے ہیں ( میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ پٹی پر اسرائیل نے صرف 6 دن میں 6000 بم گرائے جبکہ غزہ پٹی سے تقریباً 190 گنا زیادہ رقبہ رکھنے والے افغانستان پر امریکہ نے ایک سال میں 6000 بم گرائے تھے ) نتیجہ میں شہر کے شہر ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ وہاں کل تک جو بلند و بالا عمارتیں تھیں ، کل تک جہاں بازاروں میں چہل پہل اور ہلچل رہا کرتی تھی وہ شہر خموشاں کا منظر پیش کررہے ہیں ۔ ہر طرف تباہی و بربادی ہے ۔ مکانات زمین دوز ہوچکے ہیں اور ان کے ملبے تلے بے شمار نعشیں دبی پڑی ہیں۔ غزہ میں تو اسرائیل کے فضائی حملوں ، بمباری اور ڈرونس کے ذریعہ کئے گئے حملوں میں اسپتال اور اسکولس مکمل طورپر تباہ ہوچکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری بشمول بچے خواتین ضعیف مرد وخواتین اور بیمار ہلاک ہوئے ہیں ۔ ( تازہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں 7 اکتوبر سے تاحال تقریباً 7500 لوگ مارے گئے ہیں جن میں 3000 سے زائد بچے ہیں) دس لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں اور ان بے گھر فلسطینیوں کو ان پناہ گزین کیمپوں میں رکھا گیا ہے جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوئے لوگ پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں ۔اس معاملہ میں بھی اُنھیں کئی ایک مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ انسانیت کس قدر پامال ہوگئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پانی کی سربراہی روک دی گئی ہے اور بجلی مسدود کردی گئی جبکہ غذائی اشیاء کی سربراہی میں زبردست خلل پیدا ہوا ہے لوگ پانی ، غذائی اشیاء کیلئے ترس رہے ہیں ۔ ادویات کی قلت نے انسان کا جینا دوبھر کردیا ہے ، راحت کاری اور امدادی سامان بشمول پانی و غذائی اشیاء لانے والے ٹرکس کو روک دیا گیا ہے ۔
آخر جنگ کس لئے ؟ :جہاں تک روس ۔ یوکرین جنگ کا سوال ہے اصل مسئلہ اجارہ داری اور برتری کا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ یوکرین 1922 اور 1991 ء کے درمیان سویٹ یونین کا حصہ تھا ۔ ہزاروں لاکھوں نسلی روسی باشندے یوکرین کے مختلف حصوں میں مقیم ہوگئے اور پھر وہاں برتر گروپ بن گئے جیسے ہی سویت یونین کا شیزارہ بکھرگیا اور یوکرین آزاد ہوا تب وہ NATO ملکوں اورروس کے درمیان ایک بفر زون بن گیا جس کے نتیجہ میں روس اس بات کو لیکر خوفزدہ ہوگیا کہ اگر یوکرین NATO میں شامل ہوگا تو پھر اس کے نتیجہ میں NATO فورسس کو اس کے سرحدوں تک لائے گی ۔ اس لئے روس چاہتا ہے کہ یوکرین ایک غیرجانبدار ریاست ( ملک ) رہے اور اسی لئے وہ چاہتا ہے کہ یوکرین کے ان علاقوں کو جہاں نسلی روسی باشندے مقیم ہیں روس میں ضم کرلے ۔ اس طرح روس ۔ یوکرین کی جنگ زمین کیلئے ہوتی ہے ۔ زمین کے ایک حصہ کو ضم کرنے اور مابقی کو بے اثر کرنے کیلئے ہوئی ہے ۔ اب چلتے ہیں اسرائیل ۔ حماس جنگ کی طرف یہ جنگ بھی زمین کیلئے ہے ۔ تمام فلسطینی باشندے ، جن میں سے کچھ کی حماس نمائندگی کرتی ہیں یہ مانتے ہیں اور پرزور انداز میں کہتے ہیں کہ یہودیوں نے ان پر قبضہ کیا اور ان کی زمین ہڑپ لی ہے ۔ آج اسرائیل کی زمین جس اراضی پر کھڑا ہے وہ ارض مقدس فلسطین کہلاتی تھی جن پر عربوں ، یہودیوں اور عیسائیوں نے قبضے کئے لیکن 1947 ء میں اقوام متحدہ کی ایماء پر مملکت اسرائیل کی تخلیق عمل میں آئی اور پھر 1948 ء سے یہودی اسرائیل میں آباد ہوگئے ۔ جدید اسرائیل ایک ایسی مضبوط مملکت بن گئی ہے جس میں اپنے دشمن پڑوسی ملکوں کے خلاف مدافعت کی غیرمعمولی صلاحیت ہے ۔ اس کے علاوہ اسرائیل علاقہ کی واحد جوہری طاقت ہے ۔ تاریخ اگرچہ فلسطینیوں کی طرف ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مملکت اسرائیل کو نہیں مٹایا جاسکتا ۔
اقوام متحدہ ایک نامرد ادارہ ہوکر رہ گیا ہے ۔ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا نفاذ نہیں کرسکتا حالانکہ اقوام متحدہ کا قیام بلند و بالا مقاصد کے ساتھ عمل میں آیا ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ ہم اقوام عالم کے عوام اس بات کاعزم رکھتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو جنگ و جدل کی لعنت سے محفوظ رکھیں گے جو دو مرتبہ ( دونوں جنگ عظیم ) میں ہماری زندگیوں میں اور انسانیت کیلئے ناقابل یقین رنج و الم کا باعث بناء ۔ ڈرونس میزائیلوں کا مقابلہ کررہے ہیں اور میزائیل ، میزائیل شکن اسلحہ کا مقابلہ کرنے لگے ہیں ۔ بہرحال اگر دنیا زمین کے تنازعات حل نہیں کرسکتی ہے تو ایسی صورت میں جنگیں ناگزیر ہیں ۔ مثال کے طورپر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جو تنازعہ ہے وہ بھی زمین پر ہی ہے لیکن دائیں بازو کے انتہاپسندوں کو یہ آسان طریقہ ہاتھ آگیاکہ اس تنازعہ کو ہندو انڈیا اور اسلامی پاکستان کے درمیان تنازعہ کی حیثیت سے پیش کریں یہ گمراہ کن اور دھوکہ دینے والی تھیوری یا نظریہ ہے ۔ دونوں ملکوں نے تقسیم یا ملک کے بٹوارے کو قبول کیا لیکن زمین پر ہی تنازعہ برقرار رہا جبکہ چین اور انڈیا کے درمیان تنازع بھی زمین پر ہی ہے لیکن یہ کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہے کیونکہ سرحد کا ایک بہت بڑا حصہ Under Marcated ہے اور دونوں ملکوں کے دعوے بھی مختلف ہے ۔ اس مسئلہ کا حل بھی بات چیت کے ذریعہ ہی نکالا جاسکتا ہے جنگ کے ذریعہ نہیں جیسا کہ خود ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں ’’یہ دور جنگ کا نہیں ‘‘ ۔ آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پوپ فرانسس نے روس اور یوکرین میں امن کیلئے بار بار اپیلیں کی اس طرح انھوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان بھی امن کیلئے متعدد مرتبہ درخواستیں کی لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی ۔ ان کے پیشرو نے بھی ڈھیر ساری اپیلیں کی اور بار بار کہ اب جنگ نہیں کبھی نہیں کے نعرے لگائے تاہم دنیا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ Law Of The Sea (1962) سے متعلق اقوام متحدہ کی جو قرارداد ہے اس کی 150 سے زائد ملکوں نے توثیق کی اور کئی مسائل اس قرار داد کے مطابق حل کئے گئے ہیں ۔ ہماری خواہش ہے کہ زمین پر پیدا تنازعات کے حل کیلئے ایک انٹرنیشنل ٹریبونل ہو ۔ اسی طرح کے ٹریبونل کے نہ ہونے سے جنگیں ، ہلاکتیں اور تباہی ناگزیر ہے ۔