جنگیں ، امریکی صدور کا محبوب مشغلہ

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس

روس نے یوکرین کے ساتھ جو جنگ چھیڑ رکھی ہے، اس جنگ سے میں بہت پریشان ہوں (آپ کے یہ کالم پڑھنے تک روس ۔ یوکرین جنگ 32 ویں یوم میں داخل ہوچکی ہوگی)۔ دنیا بھر میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، میں نے ان کی جانکاری میں دلچسپی لینی شروع کی تب میرے ذہن میں پوپ جان XXIII کے 6 الفاظ گردش کرنے لگے۔ ان الفاظ نے مجھ پر گہرے اثرات مرتب کئے، وہ الفاظ یہ تھے۔ No More War و Never Again War (مزید اور جنگ ؍ لڑائی نہیں پھر کبھی جنگ نہیں)
اگرچہ پوپ جان XXIII کا وہ بیان متاثرکن تھا لیکن اس کے بعد بھی دنیا میں بے شمار جنگیں لڑی گئیں، جن میں چھوٹی بڑی مختصر مدتی، طویل مدتی جنگیں شامل ہیں، اسی طرح یہ جنگیں مختلف علاقوں میں سرحدوں پر دور دراز کے ممالک میں لڑی گئیں۔ یہاں تک کہ نیابتی جنگوں کا بھی زور رہا۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ 20 یا 21 ویں صدی کی جنگوں سے یہ ناقابل ترین حقیقت بلکہ سچائی اُبھر کر آئی ہے کہ جنگیں تو ختم ہوگئیں لیکن کوئی بھی فاتح کی حیثیت سے منظر عام پر نہیں آیا۔ ان تمام جنگوں میں ہزاروں لاکھوں انسانی زندگیاں تلف ہوئیں لیکن کون جیتا، کون ہارا اِس کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جنگوں کے ذریعہ مسائل حل نہیں ہوتے۔ اگر دو ملکوں کے درمیان کچھ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں تو ان کا حل جنگوں سے نہیں بلکہ مذاکرات کے ذریعہ نکالا جاسکتا ہے اور نکالا جانا چاہئے۔ مثال کے طور پر 1971ء کی جنگ میں ہندوستانی کی بآسانی جیت کے باوجود ہندوستان اور پاکستان آج بھی کٹر حریف بنے ہوئے ہیں اور دونوں کے درمیان علاقائی تنازعہ پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں دنیا کی دو بڑی طاقتوں نے اپنی ساری طاقت جھونک دی۔ امریکہ اور روس دونوں کا دعویٰ تھا کہ ہم افغان سرزمین کو آزادی دلائیں گے، لیکن دونوں ملکوں بلکہ طاقتوں کا کیا ہوا؟ انہیں کس طرح کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ساری دنیا نے دیکھا اور اب افغانستان پوری طرح طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
چھاج تو بولے سو بولے چھلنی بولے جس میں سو چھید
روس میں کمیونسٹ پارٹی کے اثر و رسوخ کو ایک طرح سے ختم کرنے کے 30 سال بعد ملک کی حکمرانی سابق سوویت خفیہ ایجنسی کے ایک سابق رکن کے ہاتھ میں آگئی۔ میری مراد مسٹر ولادیمیر پیوٹن سے ہے اور وہ مئی 2000ء سے روس کے اقتدار پر فائز ہیں اور وہ مکمل اختیارات رکھتے ہیں۔ پیوٹن کی حکومت میں ہی روس نے کریمیا کا الحاق عمل میں لایا اور دو علیحدہ ہوئی جمہوریت یوکرین کے علاقے ڈاؤنباز (ڈونیٹس اور لوہانس) کو تسلیم کیا۔ ساتھ ہی جارجیا سے دو علاقوں (ابقازیا اور جنوبی اوسیتیا) کو توڑا۔ اس کے علاوہ خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے مملکت شام کی مدد کی، لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ روس نے یوکرین پر جو جنگ مسلط کی ہے، دنیا اس بارے میں تیار ہی نہیں تھی۔ یہ قبول کرنا ضروری ہے کہ پچھلے 20 برسوں میں روس نے جو کچھ بھی کیا، مغربی ممالک بالخصوص امریکہ نے وہی کام بیسویں صدی میں کیا ہے، جہاں تک امریکہ اور اس کی پالیسیوں کا سوال ہے، ہر امریکیصدور کا پسندیدہ مشغلہ مختلف ملکوں کے شہریوں میں بے چینی پیدا کرنا، خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنا، فوجی بغاوت کو ہوا دینا، سیاسی قتلوں کی منصوبہ بندی یا سازش کرنا، ان ملکوں میں کٹھ پتلی قائم کرنا، مختلف ممالک کو معاشی پابندیوں کا نشانہ بنانا رہا ہے۔ سابق امریکی صدور کیلئے یہ کوئی ممنوع چیزیں نہیں تھی بلکہ ان کی پالیسیوں کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ اگر دیکھا جائے تو سب سے افسوسناک اور غیرمنصفانہ جنگ جو امریکہ نے مسلط کی، وہ ویٹنام جنگ تھی۔ اسی طرح 2003ء میں امریکہ نے عراق پر قبضہ کیا اور اس کیلئے انتہائی دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے یہ جھوٹا بہانہ تراشہ گیا کہ صدام حسین نے عام تباہی کے ہتھیار جمع کرلئے ہیں۔
یوکرین میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ المیہ ہے۔ وہاں سے ہر روز جو اطلاعات مل رہی ہیں، تباہی و بربادی کی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں، انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس۔ یوکرین جنگ کیوں شروع ہوئی ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب بھی بہ آسانی مل سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کی اہم وجہ نیٹو کی توسیع پسندی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد متحدہ جرمنی نے مغربی جرمنی کی جگہ لی اور پھر اس وقت کے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جیمس بیکر نے روس کو اس بات کا تیقن دیا کہ نیٹو، جرمنی سے ایک انچ باہر قدم نہیں رکھے گا۔ واضح رہے کہ جرمنی کی سرحد روس سے 5,430 کیلومیٹر دور ہے۔ بہرحال اس تیقن کے باوجود 1999ء سے نیٹو نے وسعت اختیار کرتے ہوئے 14 نئے ممالک کو اپنے ارکان میں بنایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جارجیا اور یوکرین کا میلان یا جھکاؤ 30 رکنی نیٹو کی جانب ہونے لگا۔ جواب میں نیٹو نے بھی ایسا لگ رہا ہے کہ ان دونوں ممالک کو اپنا رکن بنانے پر رضامندی ظاہر کی حالانکہ روس نے سرخ لکیریں کھینچ رکھی تھیں اور کہا تھا کہ اگر یہ دو ملک نیٹو میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو پھر روس اس کی شدت سے مخالفت کرے گا، لیکن نیٹو پر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس نے جرمنی سے ایک انچ باہر نکلنا تو دور ان دونوں ملکوں کی شکل میں روس میں داخل ہوگیا۔ یہی سوچ کر روس حرکت میں آیا اور اسے اپنی سکیورٹی کا خیال ستانے لگا۔ اس معاملے میں امریکہ یا نیٹو کو چاہئے تھا کہ وہ روس کو تیقن دیتے کہ نیٹو سے روس کی سکیورٹی کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، جب روس نے کریمیا (جوکہ یوکرین کا حصہ تھا اس کا الحاق عمل میں لایا اور جارجیا کے دو علاقوں کا انضمام عمل میں لایا تب امریکہ اور نیٹو ممالک پریشان ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ روس کی اس جنگ نے زبردست تباہی مچائی اور یوکرین کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ وہاں جنگ کے نتیجہ میں جو کچھ تباہی ہوئی، وہ انتہائی خوفناک ہے۔ یوکرین کی آبادی 44 ملین ہے جس میں سے 35 ملین آبادی نے ملک سے راہ فرار اختیار کی تاکہ اپنی جانیں بچا سکے جبکہ مزید 6.5 ملین آبادی (بشمول تمام بچوں کی نصف تعداد) اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئی۔ شہروں کو زمین دوڑ کردیا گیا جبکہ بندرگاہی شہر میری پل ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔ ان تباہ شدہ شہروں میں لاکھوں لوگ بناء کسی غذا بانی یا ادویات کے پھنسے ہوئے ہیں۔ وہاں لوگ غذائی اشیاء، ادویات اور پانی کی قلت سے دوچار ہیں۔ تاحال ہزاروں لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود یوکرین کے صدر اور شہری روس کے خلاف مزاحمت پر اُتر آئے ہیں۔ خود کو حوالے کرنے اور ہتھیار ڈالنے سے اِنکار کررہے ہیں۔
یاد رکھئے! جب بھی جنگوں کا اختتام ہوتا ہے۔ کوئی بھی فاتح نہیں ہوتا اور یقینا اس جنگ میں بھی روس فاتح کے طور پر نہیں ابھرے گا۔ وہ یوکرین کو بھی ضم نہیں کرپائے گا۔ اس کے برعکس روس کو یوکرین کی شکل میں ایک دشمن پڑوسی ملک ملے گا۔ ایک مستقل دشمن یوکرین کی شکل میں سامنے آئے گا۔ اسے ہزاروں نوجوان سپاہوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا۔ اربوں ڈالرس کے ہتھیار اور دیگر فوجی ساز و سامان کی تباہی سے بھی دوچار ہوتا پڑے گا۔ ملک میں ایسے بدترین حالات پیدا ہوں گے کہ بے شمار قابل نوجوان ملک کو خیرباد کہہ کر دوسرے ملکوں میں منتقل ہوجائیں گے۔ اس کی معیشت سست روی کا شکار ہوجائے گی۔ روس پھر دوبارہ سکیورٹی اور نہ ہی عالمی برادری میں احترام حاصل کرپائے گا۔
ایک ہندوستانی کی حیثیت سے خود کو موجودہ حالات میں بے بس و مجبور محسوس کرتا ہوں، میں یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہوں کہ ہندوستانی حکومت کی پالیسی کیا ہے۔ میری نظر میں کوئی بھی مباحث اور دلائل کسی بھی طرح جنگ کو منصفانہ فرار نہیں دے سکتے۔ ایسے میں مرکزی وزارت خارجہ نے جو اصول طئے کئے ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستان یہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ جنگ غیرمنصفانہ ہے؟ کیوں آخر ہندوستان یوکرین کی شہری آبادی پر بموں کی بارش روکنے روس سے اپیل نہیں کرتا؟ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ روس۔ یوکرین کی شہری آبادیوں، ان کے گھروں، اسکولوں اور دواخانوں پر بمباری کررہا ہے۔ اس کے باوجود تباہی کے اس سلسلے کو روکنے کی ہندوستان کوشش کیوں نہیں کررہا ہے؟ کیوں ہمارے وزیراعظم، ماسکو اور کیف کا دورہ کرتے ہوئے جنگ رکوانے میں ثالث کا کردار ادا نہیں کرتے جیسے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیفتالی بینیٹ ایک جرأت مندانہ کوشش کررہے ہیں؟ آخر وہ کیا چیز ہے جو ہندوستان کو مداخلت سے روک رہی ہے۔ اس مضمون کا مقصد ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کا دانشورانہ جائزہ لینا نہیں، یہ میرے شخصی خیالات ہیں اور ایسے ہی خیالات بہت سے سنجیدہ خیال مبصرین سے سنا ہے۔ ہندوستان کی خاموشی نے عالمی فورمس میں اس کی شبیہ متاثر کرکے رکھ دی ہے۔