جنیوا ، 25 نومبر (ایجنسیز)غزہ میں دو سالہ جنگ اور مغربی کنارے میں عائد سخت معاشی پابندیوں نے فلسطینی معیشت کو اپنی تاریخ کی بدترین تباہی سے دوچار کردیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی دہائیوں پر محیط ترقی یکسر مٹ گئی ہے۔ یہ بات اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی (یْو این سی ٹی اے ڈی ) کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں منگل کے روز بتائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ کی مجموعی معیشت نے 2024 میں 2022 کے مقابلے میں 30 فیصد سکڑاؤکا سامنا کیا، جو دو سالہ اسرائیل۔حماس جنگ کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہے۔ یْو این سی ٹی اے ڈی نے کہا کہ یہ معاشی گراوٹ 1972 میں ریکارڈ جمع کرنے کے آغاز کے بعد سے سب سے زیادہ ہے اور یہ پچھلے تمام تنازعات بشمول 2000 میں امن بات چیت کی ناکامی کے بعد شروع ہونے والی سیکنڈ انتفاضہ کے معاشی اثرات سے بھی بدتر ہے۔ یْو این سی ٹی اے ڈی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل پیڈرو مانوئیل مورینو نے جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ طویل فوجی کارروائی اور برسوں سے جاری پابندیوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی معیشت کو ریکارڈ سطح کی گراوٹ میں دھکیل دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ فلسطین میں فی کس آمدنی 2003 کی سطح تک واپس گرگئی ہے، جس سے 22 سال کی معاشی ترقی ختم ہوگئی ہے۔ عالمی تقابل کے مطابق بھی یہ بحران 1960 کے بعد دنیا کے بدترین دس معاشی انہدامات میں سے ایک ہے۔ یْو این سی ٹی اے ڈی کے بموجب دو سالہ جنگ نے غزہ کے انفراسٹرکچر، صنعت، تجارت، زراعت اور سماجی شعبوں کو تباہ کر دیا ہے اور خطہ اب آنے والے کئی برسوں تک عالمی امداد پر انحصار کرے گا۔ یْو این سی ٹی اے ڈی کے ماہرِ معاشیات رامی الازّہ نے تفصیلات فراہم کرنے کے دوران کہا کہ غزہ کو مکمل بحالی میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں ۔ غزہ کی معیشت کو جنگ سے پہلے والی سطح تک واپس آنے میں بھی طویل وقت درکار ہوگا اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب تمام حالات بہتر ہوں اور بھرپور تعاون میسر آئے۔ رپورٹ میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں کی تعمیرِ نو، اقتصادی بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مدد فراہم کرے، کیونکہ موجودہ صورتحال نے لاکھوں فلسطینیوں کو شدید معاشی اور انسانی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔