مرکنڈے کاٹجو
ڈاکٹر کفیل خان میڈیکل پراکٹیشنر ہیں، جنھوں نے ایم بی بی ایس اور ایم ڈی (پیڈیاٹرکس) کی ڈگریاں کرناٹک میں منی پال کے مشہور کستوربا میڈیکل کالج سے حاصل کئے۔ بعد میں انھوں نے بی آر ڈی میڈیکل کالج، گورکھپور میں لیکچرر کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ 2017ء میں جب میڈیکل کالج سے جڑے گورکھپور ہاسپٹل میں کئی بچے فوت ہوئے، ڈاکٹر کفیل کو گرفتار کرکے طبی لاپرواہی کا الزام عائد کیا گیا۔ لیکن انکوائری سے انکشاف ہوا کہ ہاسپٹل میں آکسیجن سلنڈروں کی قلت تھی اور درحقیقت، ڈاکٹر کفیل نے اپنے خرچ پر چند آکسیجن سلنڈروں کا انتظام کیا اور اس بحران کی صورتحال میں اوورٹائم بھی کیا۔ یہ بھی پایا گیا کہ انھوں نے کئی حکام کو مکتوبات تحریر کرتے ہوئے انھیں آکسیجن سلنڈروں کی قلت کے بارے میں مطلع کیا تھا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ انڈین میڈیکل اسوسی ایشن، ایمس دہلی کے کئی ڈاکٹروں اور زائد از 200 ہیلتھ پروفیشنلز اور اتحادی جہدکاروں نے ڈاکٹر کفیل کی حمایت میں چیف منسٹر یو پی یوگی آدتیہ ناتھ کو مکتوبات تحریر کئے۔ ان کو جیل میں 9 ماہ گزارنے کے بعد اپریل 2018ء میں ضمانت پر رہا کیا گیا، اور آخرکار ستمبر 2019ء میں انھیں الزامات منسوبہ سے بری کردیا گیا۔
12 ڈسمبر 2019ء کو ڈاکٹر کفیل نے شہریت (ترمیمی ) قانون یا سی اے اے کی مخالفت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ (یو پی) میں منعقدہ ریلی سے خطاب کیا۔ اس پر ایک ایف آئی آر 13 ڈسمبر کو درج کیا گیا کہ مبینہ طور پر مذہبی عدم ہم آہنگی پیدا کی گئی (تعزیرات ہند کے دفعات 153A اور 295A)۔ پھر ان کو 29 جنوری کو ممبئی ایئرپورٹ پر یو پی پولیس نے گرفتار کیا اور انھیں یو پی لے آئی۔ ڈاکٹر کفیل کو علی گڑھ چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے 10 فبروری کو ضمانت عطا کی، لیکن متھرا جیل سے رہا نہیں کیا گیا۔ بالآخر تین روز بعد اُن کے خلاف نیشنل سکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت احتیاطی طور پر حراست میں رکھنے کا آرڈر جاری کیا گیا۔
میں نے ڈسمبر میں اے ایم یو میں ڈاکٹر کفیل کی تقریر توجہ سے سنی ہے۔ انھوں نے کوئی مذہبی برادری کے خلاف کہیں بھی بات نہیں کی۔ انھوں نے یہ کہا: ’’ہم (ہندوستانی مسلمان) 25 کروڑ (250 ملین) افراد ہیں، اور ہم لنچنگ یا نئے نئے قوانین سے خائف نہیں ہوسکتے؛ (تمہاری اوقات نہیں کہ تم ہم سے کچھ چھین سکیں، ہمیں ڈرا سکیں، ہمیں ہٹا سکیں۔ ہم 25 کروڑ ہیں)۔‘‘ ڈاکٹر کفیل نے متعدد ہندوستانی مسلمانوں کے احساسات کی ترجمانی کی، جن کا تاثر ہے کہ موجودہ حکومت مسلم دشمن ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر کفیل کی تقریر کافی جذباتی رہی، لیکن جمہوریت میں یقینا عوام کو کچھ بھڑاس نکالنے دینا چاہئے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس تقریر پر آئی پی سی کا سیکشن 153A عائد کیا جائے جو مذہب وغیرہ کی بنیاد پر ہم آہنگی میں بگاڑ پیدا کرنے سے متعلق ہے، یا سیکشن 295A IPC جو مذہبی احساسات پر ضرب لگاتے ہوئے فوجداری جرم کے ارتکاب سے متعلق دفعہ ہے۔ لیکن یہ دفعات عائد کئے جانے کے بعد کیا این ایس اے کے تحت بطور احتیاط حراست میں رکھنے کا آرڈر جاری کرنا منصفانہ عمل ہے؟ احتیاطی حراست میں کوئی ٹرائل نہیں ہوتا، نہ ہی کسی وکیل کو ملاقات کی اجازت رہتی ہے۔ لہٰذا، یہ غیرجمہوری ہے۔
سپریم کورٹ کا موقف
ریکھا ۔ ریاست ٹاملناڈو کیس میں سپریم کورٹ کی تین ججوں والی بنچ نے میری صدارت میں حسب ذیل رولنگ دی تھی: ’’ احتیاطی طور پر حراست بہ اعتبار نوعیت خود جمہوری نظریات سے متضاد ، اور قانون کی حکمرانی کیلئے بہت خراب ہے۔ اس طرح کا کوئی قانون امریکا یا انگلینڈ میں نہیں ہے، ماسوائے جنگ کا وقت۔ تاہم، چونکہ ہندوستانی دستور کا آرٹیکل 22(3)(b) بطور احتیاط حراست کی اجازت دیتا ہے، ہم اسے غیرقانونی تو نہیں کہہ سکتے، لیکن ہمیں ضرور اختیارات کو کافی سختی کے ساتھ حدود میں رکھنا چاہئے، ورنہ ہم دستور کے آرٹیکل 21 کے ذریعے ضمانت دیئے گئے عظیم حق آزادی کو چھین رہے ہوں گے، جسے طویل، کٹھن، تاریخی جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا ہے۔ اس لئے یوں کہا جاسکتا ہے کہ اگر معمول کے قانونِ ارض (آئی پی سی اور دیگر تعزیری قوانین) کوئی صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں تو احتیاطی حراست کے قانون کو اختیار کرنا ’غیرقانونی‘ ہوگا۔ جب کبھی قانون احتیاطی حراست کے تحت جاری کردہ آرڈر کے جواز کو چیلنج کیا جائے، عدالت ایک سوال ضرور پوچھتی ہے: کیا معمول کا قانونِ ارض دستیاب صورتحال سے نمٹنے کیلئے کافی ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو حراست کا حکمنامہ غیرقانونی ہوگا۔‘‘
ریکھا کیس میں یہ بھی کہا گیا: ’’ بلاشبہ ہردھن ساہا کے کیس میں دستوری بنچ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجرمانہ فعل کے ارتکاب پر فوجداری عدالت میں ٹرائل کا سامنا کرنے کا مستوجب ہو، یا اس پر مقدمہ کی سنوائی ہورہی ہو، تب بھی حکام کیلئے قانون احتیاطی حراست کے تحت ڈیٹنشن کا حکمنامہ جاری کرنا منع نہیں ہے۔ تاہم، اس بات کو ٹھیک طور پر سمجھنا ضروری ہے اور اسے آرٹیکلس 21 اور 22 میں دستوری ترکیب کے پس منظر میں دیکھا جائے۔ آرٹیکل 22(3)(b) صرف استثنا برائے آرٹیکل 21 ہے، اور اپنے آپ میں کوئی بنیادی حق نہیں ہے۔ آرٹیکل 21 دراصل ہمارے دستور میں بنیادی حقوق کے بارے میں پورے باب کیلئے مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ حق آزادی کا مطلب ہے کہ کسی شخص کو مجرم قرار دینے سے قبل مقدمہ کی سماعت ضرور ہونا چاہئے، جس میں اسے اپنے دفاع کو پیش کرنے کا موقع ضرور دیا جانا چاہئے۔ اس کے بعد صراحت ہے کہ اگر کوئی شخص مجرمانہ حرکت کی پاداش میں ٹرائل کا سامنا کرنے والا ہو، یا سماعت جاری ہو، لیکن قانون (آئی پی سی وغیرہ) اس معاملے سے نمٹنے سے قاصر ہوں، تب اور صرف تب، قانون احتیاطی حراست کی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر کفیل کی 12 ڈسمبر 2019ء کی تقریر کے معاملے میں اول، مجھے نہیں لگتا کہ آئی پی سی کے دفعات 153A یا 295A کو لاگو کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔ دوم، اگر گنجائش نکلتی بھی ہے تب یقینا معاملے سے نمٹنے کیلئے یہ دفعات کافی ہیں۔ اس لئے این ایس اے کے تحت احتیاطی حراست کا حکمنامہ واضح طور پر غیرقانونی ہے، اور اسے عدالت کی جانب سے کالعدم کردینا چاہئے۔ ڈاکٹر کفیل اور اُن کی فیملی کو حکومت ہراساں کررہی ہے۔ ان کے بھائی کو 2018ء میں گولی ماری گئی، لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گیا۔ وہ اور ان کی فیملی کا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر کفیل نے کہا ہے کہ ان کی فیملی کے ساتھ لوگوں نے بزنس روک دیا ہے کیونکہ انھیں چیف منسٹر سے مخالفت مول لینے کا خوف ہے۔
جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں؟
[email protected]