محمد مصطفی علی سروری
سال 2019 کو ختم ہونے ایک مہینہ باقی تھا۔ نومبر کے ماہ میں شہر حیدرآباد کا نام اچانک ہی پورے ملک اور ملک سے باہر بھی ایک واقعہ کی وجہ سے خبروں کی زینت بننے لگا۔ چاہے حیدرآباد کا رہنے والا ہو یا کہیں کا بھی جس کسی نے بھی اس واقعہ کی تفصیلات سنی اس کا سر شرمندگی سے جھک گیا۔ شہر حیدرآباد کے بشمول ملک کے طول و عرض میں احتجاج ہونے لگے، ریالیاں نکالی گئیں، احتجاجی دھرنے دیئے گئے اور تو اور ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے پارلیمنٹ میں بھی حیدرآباد کے واقعہ پر صدائے احتجاج بلند ہوئی۔
پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے صدر نشین و نائب صدر جمہوریہ ہند وینکیا نائیڈو نے ایوان میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عصمت ریزی کرنے والوں کو عدالت کی جانب سے سزا دینے کے بعد کیا ہو رہا ہے وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ انہوںنے واضح کیا کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے معاملے کسی ایک شہر یا علاقے تک محدود نہیں ہیں۔ اسی طرح کے واقعات کے سدباب کے لیے ایم وینکیا نائیڈو نے کہا کہ بل نہیں بلکہ سیاسی عزم کی ضرورت ہے اور انتظامی میکانزم کو چست بنانے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ سب سے اہم چیز لوگوںکے ذہنوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
27؍ نومبر 2019 کی رات شہر حیدرآباد کے مضافات میں ایک خاتون وٹنری ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی او رپھر جلادینے کی واردات انجام دینے کے الزام میں پولیس نے چار نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ ان ملزمین کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ ہر طرف سے گونج رہاتھا لیکن قارئین ذرا سا توقف کیجیے گااور ایک سوال کاجواب دیجئے گا کیا ان چاروں ملزمان کو سزائے موت دینے کے بعد اس ملک میں ہر ماں بیٹی کی عزت و عصمت کی کوئی گیارنٹی دے سکتا ہے؟ سال2012ء میں دہلی میں نربھئے واقعہ کے بعد عوامی احتجاج سے سارا ملک دہل گیا تھا۔ عوام کی سخت رائے عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کی پارلیمنٹ نے ایک سخت قانون نربھئے کو بھی منظور کیا تھا۔ سات برس کا عرصہ گزرجانے کے بعد کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ اول تو ان ملزمان کو عدالت کی جانب سے قصوروار قرار دینے کے بعد بھی سزائے موت کے فیصلہ پر بھی عمل درآمد نہیں کیاجاسکا، دوم آج بھی ملک کے طول و عرض سے ہر روز اس طرح کے زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اس پس منظر میں آیئے ان عوامل کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس طرح کی زیادتی کے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔
جب ہم ان ملزمان کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ 20 تا 25 سال کی عمر کے ایسے نوجوان ہیں جن کا تعلق حیدرآباد سے تقریباً 175 کلو میٹر دور کے علاقے نارائن پیٹ سے ہے۔ ان لوگوں نے کوئی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ محمد عرف عارف کی عمر 25 برس بتلائی گئی۔ The quint کی رپورٹ کے مطابق عارف لاری چلانے کا کام کرتا ہے۔ عارف کے والد حسین محمد بھی لاری چلانے کا کام کرتے تھے۔ کچھ برس پہلے حسین لاری سے گرجانے کے بعد کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اب وہ گھر پر ہی رہتے تھے۔ عارف نارائن پیٹ کے گائوں جا کولر کے جس چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے وہ ایک ہی کمرے پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے مطابق عارف نے اپنی بیشتر زندگی گائوں میں ہی گذاری اور لاری چلانے کے لیے گائوں سے باہر نکلا۔ عارف کی ماں مالن بی کے حوالے سے بتلایا گیا کہ اب عارف ہی گھر کا کفیل تھا اور وہ کماکر لاتا تو گھر میں چولہا جلتا تھا۔ جب عارف دسویں میں تھا تب ہی اس نے تعلیم ترک کردی تھی۔ عارف نے پہلے تو گائوں کے قریب واقع ایک پٹرول پمپ پر دو برس کام کیا، اس کے بعد وہ لاری چلانے لگا۔ وہ کرناٹک اور حیدرآباد کے درمیان گاڑی چلاتا تھا اور ایک مہینے میں 20تا 25ہزار کماتا تھا۔
عارف اپنے ماں باپ کو گذارے کے پیسے دیتا تھا لیکن عارف کے والدین کو اس بارے میںکچھ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ اپنی زندگی کیسے گذارتا ہے۔ اپنی آمدنی کا بقیہ حصہ کہاں خرچ کرتا تھا۔ اس کے دوست کون تھے۔ ان سب کے بارے میں ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں معلوم تھا۔ عارف پانچ تا آٹھ دنوں کے بعد گھر آتا تو ماں اس کو پانی گرم کر کے دیتی تو وہ نہاکر کپڑے بدل لیتا۔ ماں کھانے کے لیے پوچھ لیتی تو منع کردیتا، تھوڑی دیر میں اس کا فون بجنے لگتا اور پھر وہ گھر سے نکل جاتا۔آٹھ پندرہ دنوں میں جب بھی عارف اپنے گھر کو آتا تو کتنی دیر تک گھر پر رہتا اس کے متعلق عارف کی ماں مالن بی بتلاتی کہ وہ بمشکل ایک دیڑھ گھنٹے تک ہی گھر پر رہتا اور پھر چلا جاتا۔
صرف عارف کی ماں ہی نہیں اس کے گائوں کے دیگر لوگ بھی عارف کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔ یہاں تک کہ رپورٹ کے مطابق 65 سال کے چاند پاشا ہ بھی عارف کے قریبی پڑوسی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عارف کب آتا اور کب جاتا تھا ان کو بالکل بھی پتہ نہیں ہوتا تھا۔ وہی نہیں گائوں کے کئی لوگ ہیں جنہوں نے عرصے سے عارف کو بالکل بھی نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ اب وہ لوگ عارف کو دیکھنے پر پہچان بھی نہیں سکتے ہیں۔ عارف کے ایک اور پڑوسی نے The Quint کی خاتون رپورٹر ایشوریا کو بتلایا کہ وہ لڑکا گائوں کے باہر کیا کرتا تھا ہمیں بالکل بھی نہیں معلوم تھا۔ یہ تو ملزم نمبر ایک عارف کی بات تھی۔ پولیس کی جانب سے داخل کردہ ایف آئی آر (FIR) میں ملزم نمبر دو جے شیوا کو بنایا گیا ہے۔ دی کوئنٹ نے 3 ؍ دسمبر 2019ء کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ جو لو شیوا ایک لاری کلینر ہے۔ اسی نے وٹرنری ڈاکٹر کی ٹو وہیلر کو پنکچر کی مرمت کے لیے لے جانے کا ڈرامہ کیا تھا۔ بعد میں شیوا نے خود بھی خاتون کے ساتھ زیادتی کی اور پٹرول پمپ سے پٹرول خرید کر خاتون کو شاد نگر کے قریب جلا ڈالنے کے کام میں ہاتھ بٹایا۔شیوا کے والد نے ویب سائٹ کی نمائندہ خاتون کو بتلایا کہ مجھے اپنے بیٹے سے اب کچھ توقع باقی نہیں رہی ہے۔ اب میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی پیشی کے دوران میں عدالت بھی جانے والا نہیں ہوں۔ شیوا کی بہن نے بھی اس موقع پر کہا کہ اس کو مار دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس نے کام ہی ایسا کیا ہے۔ اس کو تو موت کی سزاء دے دو۔
پولیس نے جب ملزم نمبر دو کوپکڑا تو ساتھ میں ملزم نمبر تین جولو نوین کو بھی پکڑ کر لے گئی۔ نوین کے والد کا کینسر کے عارضہ سے 12 برس پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ نوین بھی اب لاری کے کلینر کے طور پر کام کرتا تھا۔ ہر مہینے 2 سے 3 ہزار روپئے کماتا تھا۔
شیوا اور نوین آپس میں رشتہ دار ہیں۔ نوین شیوا کے باپ کی بہن کالڑکا ہے اور باپ کے مرجانے کے بعد ماں کی سرپرستی میں رہ رہا تھا۔ وٹنری ڈاکٹر کی عصمت ریزی کے چار ملزمین میں سے چوتھے ملزم چنا کنٹا چنا کا شویلو اکلوتا ایسا ملزم تھا جو گردوں کے عارضے میں مبتلا تھا اور اس ملزم کی صرف 6 ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی۔ چنا کا شیولو کی ماں کے مطابق اپنی بیماری کی وجہ سے وہ کام بھی نہیں کر رہا تھا لیکن دوستوں کے بلانے پر ان کے ساتھ چلا گیا۔ اس کی ماں نے بتلایا کہ میرے بیٹے نے غلطی کی ہے۔ اس کو سخت سزا ملنی چاہیے۔چاروں ملزمان کے گھر والوں نے اس بات کا میڈیا والوں کے روبرو اعتراف کیا کہ ان کے لڑکوں نے اگر واقعی ایسی گھنائونی حرکت کی ہے تو ان کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ ماں باپ اور ملزمین کی بہن کے حوالے سے بھی ایسی باتیں بہت سے رپورٹس میں نقل کی گئیں۔
قارئین ان ساری تفصیلات کا ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا کہ ہم بحیثیت ذمہ دار شہری غور کریں کہ نئے اور سخت قوانین بنانے سے ہمارے سماج میں لڑکیوں کی زندگی محفوظ ہونے والی نہیں ہے۔ اصل جو ضرورت ہے وہ اس بات کی ہے کہ ہر ماں باپ اور بچوں کے تمام سرپرست کسی اور کی ذمہ داری لیں نہ لیں مگر اپنے گھر، اپنے خاندان کے بچوں کی ذمہ داری قبول کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ بچہ ہے، لڑکا ہے کچھ بھی کرسکتا ہے ، اس طرح کی ذہنیت کو ترک کرنا ضروری ہے اور جب بچے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کریں تو اس وقت ان سے قطع تعلق کا اظہار بھی صحیح نہیں ہے۔
اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بچوں کی نگہداشت اور تربیت میں خامی رہی تو گھر میں اچھا رہنے والا بچہ بھی باہر جاکر خراب سے خراب گل کھلا سکتا ہے۔ اور خراب دوستوں کی صحبت ایک گردوں کے عارضہ میں مبتلا 6 مہینے کے دولہے کو بھی عصمت ریزی کے جرم میں شریک ہونے پر آمادہ کرلیتی ہے۔ مسلم والدین کی اپنے بچوں کی تربیت میں خامی اور خرابی ہی تو ہے کہ عارف نام کا مسلم نوجوان باپ بیمار ہوجانے کی صورت میں کام کر کے گھر کی مالی ذمہ داریاں نبھانا تو سیکھ جاتا ہے مگر اسلام کی نظر میں ایک حرام کاری سے نہیں بچ پاتا ہے۔ گھر میں جب باپ بیمار پڑجائے، بچے کو کمانے کا راستہ آسان نظر آتا ہے تو بچے پیدا ہونے پر ان کی تربیت اسلامی ماحول اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرنا کیوں سجھائی نہیں دیتا۔ دراصل یہ ہماری دین اسلام سے دوری و کم علمی کی نشانی ہے۔ راجیہ سبھا میں اظہار خیال کرتے ہوئے جیسے وینکیا نائیڈو نے لوگوں کے ذہنوں کو بدلنے کی وکالت کی ویسے ہی ہر مسلمان کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ بحیثیت مسلمان وہ اپنی زندگی من چاہی انداز میں گذارنے کے لیے آزاد نہیں ہے۔ اس کی زندگی کا ہر فیصلہ اور ہر کام شریعت محمدیؐ کی روشنی میں ہی طئے پاسکتا ہے۔
کاش کہ مسلمان اس بات کو سمجھیں شادی کرنا تو صرف سنت رسولؐ ہے جبکہ اولاد کی تربیت کرنا اس سے بڑا اور اصل فرض ہے۔ اور ہم ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں سنت اور فرائض پر عمل آوری کے لیے مسلمان اپنی سہولت پسندی کو پیمانہ بنانے لگا تو مجھے یہ سمجھ لینا ہوگا کہ میرے لیے توبہ کرنا ضروری ہے۔
میں توبہ کرتا ہوں اپنی من چاہی زندگی سے، میں توبہ کرتا ہوں شیطان کی اطاعت سے اور پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود کے شر سے اور اللہ رب العزت سے دعا مانگتا ہوں کہ ان لوگوں کا راستہ چلا جس پر تونے انعام کیا اور ہم سبھی مسلمانوں کو اپنی وہ ذمہ داری پوری کرنے کی توفیق عطا فرما جو آخری نبیؐ کے امتی ہونے کے ناطے بحیثیت خیر امت ہم سب پر عائد کی گئی ہے۔ (آمین یار ب العالمین)
مزہ دیتی ہیں زندگی کی ٹھوکریں ان کو محسن
جنہیں نام خدا لے کر سنبھل جانے کی عادت ہے
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]
