جوبلی ہلز حلقہ میں کانگریس امیدوار کو مجلس کی تائید

   

بہار میں کانگریس کی مخالفت پر سوشیل میڈیا پر مجلس کے فیصلہ کی مذمت
حیدرآباد۔19۔نومبر(سیاست نیوز) بہار میں کانگریس کے خلاف امیدوار اور جوبلی ہلز میں کانگریس امیدوار کی تائید پر مجلس اتحاد المسلمین پر مختلف گوشوں سے تنقیدیں کی جانے لگی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں مجلس اپنی طاقت رکھنے کے باوجود جوبلی ہلز سے انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے کانگریس کی تائید کر رہی ہے جبکہ بہار میں مجلس کے امیدواروں کے امکانات موہوم ہونے کے باوجود بہار میں اتحاد کی تشکیل کے ذریعہ امیدوار میدان میں اتارے جانے لگے ہیں۔جوبلی ہلز حلقہ اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ریاست میں برسراقتدار کانگریس کے امیدوار وی نوین یادو کو مجلس کی تائید کے بعد کہا جار ہاہے کہ مجلسی قیادت جس طرح سے تلنگانہ میں برسراقتدار جماعت کے امیدوار کی کھل کر تائید کر رہی ہے اسی طرح سے بہار میں بھی برسراقتدار جماعت کی امیدوار میدان میں اتارتے ہوئے تائید کررہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مجلس اتحادالمسلمین کے فیصلہ کی مذمت کرتے ہوئے یہ الزامات عائد کئے جانے لگے ہیں کہ مجلس اتحادالمسلمین تلنگانہ میں کانگریس امیدوار کی تائید کر تے ہوئے جوبلی ہلز میں اسے کامیاب بنانے کی کوشش میں مصروف ہے جبکہ بہار میں بھی مجلس کو اسی طرح کا موقف اختیار کرنا چاہئے تھا کیونکہ اگر مجلس بہار میں کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کے امیدواروں کی تائید کرتی ہے تو ایسی صورت میں بہار سے این ڈی اے حکومت کے خاتمہ کے لئے کام کرنے والوں میں مجلس کا بھی نام شامل ہوتا لیکن بہار میں مخالف کانگریس اتحاد کی تشکیل کے ذریعہ مجلس پر ووٹوں کی تقسیم کی سیاست کے الزامات عائد کئے جانے لگے ہیںاور کہا جارہا ہے کہ جوبلی ہلز میں جہاں 2سال قبل مجلس اتحاد المسلمین نے کانگریس امیدوار محمد اظہر الدین کے خلاف اپنے امیدوار کو میدان میں اتارا تھا اب جبکہ کانگریس وی نوین یادو امیدوار ہیں تو کانگریس کے خلاف امیدوار میدان میں اتارنے کے بجائے کانگریس امیدوار کی تائید کا اعلان کیاگیا ہے ۔سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس پر مجلس اتحاد المسلمین کے بہار انتخابات میں حصہ لینے اور بڑی تعداد میں امیدوار میدان میں اتارنے کے فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور کہا جارہاہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کی تائید اور بہار میں کانگریس کی مخالفت ناقابل فہم ہے۔مجلسی قیادت کے اس فیصلہ کے سلسلہ میں خود مجلسی کارکن کوئی رائے قائم پیش کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اور دفاعی موقف اختیار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ جماعت نے فیصلہ کیا ہے تو کچھ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔3