سابق مرکزی وزیر فینانس
دو مارچ 2020ء کو مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے پارلیمنٹ میں بتایا تھا کہ ہندوستان کورونا وائرس کے خطرہ سے نمٹنے پوری طرح تیار ہے۔ وزیر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا ’’میں نہیں سمجھتا کہ عوام کو خوف و دہشت میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے اور میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ ہر مقام پر ہر وقت ماسک پہنے رہنے کی بھی ضرورت ہے بلکہ یہ پوری طرح عوام کی مرضی و منشاء پر منحصر ہے۔ وہ چاہیں تو فیس ماسک پہنے یا نہ پہنیں‘‘۔ ڈاکٹر ہرش وردھن کے مذکورہ بیان کے ساتھ ہی ایک ڈاکٹر ، نتن نے کچھ یوں ٹوئٹ کیا: ’’میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہرش وردھن نے صورتحال پر صحیح تبصرہ کیا ہے اور میں خود چونکہ ایک فزیشین ہوں، اس لئے آپ اور ہم جس طبی نظام سے تعلق رکھتے ہیں، اس پر پورا اعتماد رکھتے ہیں اور ہم سب مل کر بہ آسانی کورونا وائرس کو ہندوستان میں شکست دیں گے، لیکن 24 مارچ 2020ء کی شام سارے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا، اسی طرح 7 جولائی 2021ء کو جبکہ کورونا وائرس کی دوسری لہر منظر عام پر آکر شدت اختیار کرگئی، ڈاکٹر ہرش وردھن سے مستعفی ہوجانے کیلئے کہا گیا۔
وزارت فینانس اور ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ برائے ماہ فروری 2022ء کے مطالعہ کے بعد میں نے ڈاکٹر ہرش وردھن اور ڈاکٹر نتن دونوں کو یاد کیا۔ واضح رہے کہ وزارت فینانس دراصل ملک کی معیشت کے نظم کی ایک ذمہ دار ایگزیکٹیو اتھاریٹی ہے اور یہ وزارت ملک کے مالی اُمور کی بھی نگران ہے، ایسے میں کوئی بھی رپورٹ میں جو خودستائی کی گئی ہے، اسے بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔ جہاں تک آر بی آئی کا سوال ہے، یہ ملک کی ایک مالیاتی اتھارٹی ہے اور اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بے باکانہ انداز میں اپنی رائے پیش کرے گی۔ بہرحال وزارت فینانس اور آر بی آئی دونوں کی رپورٹس پڑھنے کے بعد یہ سوچا گیا کہ اس میں پیش کردہ حقائق اور ڈیٹا یکساں ہوں گے۔ دونوں رپورٹس کو پڑھ کر اور یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ زیادہ تر حقائق اور اعداد و شمار مشترک ہوں گے، میں حیران رہ گیا کہ کیا وہ ایک ہی شخص کی تحریر کردہ ہیں۔
ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں آر بی آئی کی رپورٹ ایک سنجیدہ نوٹ پر شروع ہوئی ہے۔ عالمی معیشت کیلئے ’’آؤٹ لُک‘‘ ایک منفی خطرہ سے گھرا ہوا ہے اور اومیکران انتہائی سرگرم ہے اور اپنی سرگرمی جاری رکھے ہوئے ہے جسے مرکزی بینکوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خطرہ کی گھنٹی کے طور پر دیکھتی ہے۔ افراط زر اور ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی مارکٹ کی معیشتوں میں مالیاتی پالیسیوں کو نرم یا ہلکا کرنے کی بھی جلدی دیکھی جارہی ہے جبکہ عالمی سطح پر معاشی بحالی کی رفتار بھی خطرہ میں دکھائی دیتی ہے۔ آپ کو بتادوں کہ رپورٹ کا اختتام بھی ایک سنجیدہ نوٹ پر ہوتا ہے جو اس طرح ہے’’اشیائے ضروریہ ؍ اجناس کی قیمتوں میں اضافہ اور Supply Chain کی رکاوٹوں کے برقرار رہنے کی وجہ سے مہنگائی تمام معیشتوں یا ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس طرح سرمایہ کاروں کے حوصلے بھی پست ہوگئے ہیں۔ یہ ایک ایسا خطرناک رجحان ہے جس سے سرمایہ کاری کا بہاؤ رک سکتا ہے اور Supply Chain کی بحالی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مذکورہ رپورٹ کے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آغاز اور اختتام کے درمیان آر بی آئی کی رپورٹ حکومت کی رپورٹ سے مختلف نہیں ہے۔ وزارت فینانس کی رپورٹ بظاہر حوصلہ افزا اور خود ستائی سے بھرپور ہوسکتی ہے لیکن وہ دراصل ایک انتباہ تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت کہ عالمی سطح پر حالیہ جو جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں نے بھی نئے مالی سال میں معاشی نمو یا ترقی اور افراط زر کے نقطہ نظر میں غیریقینی صورتحال کا عنصر متعارف کروایا ہے۔
خدشات
عالمی سطح پر معیشت کی غیریقینی صورتحال کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں بھی ہندوستانی معیشت کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں لیکن ان خدشات کو ظاہر کرتا مناسب ہے۔
(1) ہر منطقے باخطہ اور بڑی معیشت کے حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے نے قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو اوسطاً 1.5% کم کردی ہے چنانچہ امریکہ کی شرح نمو 2% اور چین کی شرح نمو 3.2% کم ہوئی ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ہندوستان کی شرح نمو صرف 0.5% کم ہوگی اور 2022-23ء میں 9% رہے گی۔
(2) زیادہ تر ترقی یافتہ ملکوں یا معیشتوں اور کئی ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتوں میں خاص طور پر افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔ سونا، کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ کی قیمتیں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ فبروری میں ہندوستان کی ڈبلیو پی آئی افراط زر 13.1% اور سی پی آئی افراط زر 6.1% رہی۔ خوراک کی افراط زر 5.9% مینوفیکچرنگ کی افراط زر 9.8% اور ایندھن اور بجلی کی افراط زر اب بھی 8.7% پر زیادہ ہیں۔
(3) عالمی معیشت کی سست روی کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کاروں کے جذبات متزلزل ہوگئے ہیں۔ اسٹاک مارکٹس بھی نیچے آگئی ہیں۔ بانڈس کی قیمتیں بھی پریشان کن ہوگئی ہیں اور مرکزی بینکوں نے شرح سود میں اضافہ کردیا ہے یا اس میں اضافہ کا انتباہ دیا ہے۔
(4) روزگار کے محاذ پر ہندوستان میں مزدوروں کی شرکت کی شرح میں کمی آئی ہے اور ساتھ ہی ملازمتوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔
(5) اخراجات کے محاذ پر حکومت سرمایہ کے اخراجات پر بینکنگ کررہی ہے۔ حکومتی سرمایہ کے اخراجات کا تخمینہ مشکوک و مشتبہ ہے اور اس میں دوہری گنتی ہوسکتی ہے۔ سرمایہ کے اخراجات کی مالی اعانت زیادہ تر مارکٹ قرض کے ذریعہ ہوتی ہے۔
ویسے بھی آج ہندوستان کو بہبودی یا فلاحی ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ سروے پر سروے سے پتہ چلتا ہے کہ حال ہی میں اختتام کو پہنچے پانچ اسمبلی انتخابات میں رائے دہندوں کی اکثریت نے ترقی و خوشحالی کی خواہش کا اظہار کیا لیکن ان لوگوں نے جوں کا توں موقف رکھی ہے۔ ویلفیرازم کارآمد ہے لیکن وہ کسی بھی طرح حقیقی اور پائیدار ترقی کا متبادل نہیں ہے۔