امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ ایرانی جوہری پروگرام کیلئے سفارتی حل کیلئے پر امید ہے۔ سفارتی کوششوں سے ایرانی جوہری بم کو روکا جاسکے گا۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو امریکی فوج یہ یقینی بنانے کیلئے تیار کھڑی ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری بم نہ بنا سکے اور جس حد تک گہرائی میں جانا پڑے یا جتنا بھی بڑا اقدام کرنا پڑا کر سکے۔’امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان ایک موقع پر سامنے آیا ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان اومان میں براہ راست ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں مذاکرات شروع کر چکے ہیں۔ تاکہ ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں مغربی تشویش دور ہوں مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ امریکہ اور ایران کے درمیان اس سلسلے میں پہلے عبوری رابطے کے ذریعے مزاکرات کی شروعات پر بات کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا ‘ یہ ایک مفید اور اچھا اقدام ہے۔’امریکی ٹی وی ‘ سی بی ایس ‘ کے پروگرام ‘ فیس دی نیشن ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘ جب امریکی صدر ٹرمپ یہ امید رکھتے ہیں کہ ہمیں ایرانی جوہری پروگرام روکنے کیلئے فوجی آپشن اختیار نہیں کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر ہمیں ایسا کرنا پڑا تو کہ جوہری بمب ایران کے ہاتھ نہ لگنے دیں تو ہم ایسا کریں گے۔ تاہم میں دوبارہ کہوں گا ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے۔ ‘خیال رہے صدر ٹرمپ نے بھی بدھ کے روز کہا ہے ‘اگر اومان کی میزبانی میں ہونے والے امریکہ ایران مذاکرات ناکام ہو گئے تو امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر یقینا فوجی کارروائی کرے گا۔’صدر ٹرمپ نے رپورٹرز کے ساتھ بات چیت میں یہ بھی کہا ‘ اگر اس مسئلے کا فوجی حل ہی ممکن رہا تو ہم فوجی حلا کیلئے ضرور جائیں گے۔ بلاشبہ اس میں اسرائیل غیر معمولی طور پر ہمارے ساتھ شریک ہو گا۔ ‘امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے یہ ماہ مارچ کے اواخر میں کیے گئے کھلے انتباہ کے بعد ایک اور کھلی بات تھی۔
ٹرمپ نے کہا’ اگر وہ معاہدہ نہیں کرتے تو پھر بمباری ہوگی۔’خیال رہے ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں 2018 کے دوران امریکہ ایران کے ساتھ کیے ہوئے جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔
کئی تجزیہ کاروں کا ایران جوہری بم کی تیاری سے محض چند ہفتوں کے فاصلے پرہے۔ لیکنیہ اندازہ نہیں ہے کہ ان تجزیہ کاروں کے تجزیے کی بنیاد عراق میں تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی جیسی معلومات پر ہے یا معاملہ اس سے مختلف اور حقیقی معلومات پر ہے۔