جو تھے سیاسی گھرانے والے سب ایک نکلے

,

   

گستاخ کے خلاف نوجوانوں میں ایمانی حرارت
مصلحت پسند قیادتوں کیلئے خطرہ کی گھنٹی

رشیدالدین
ہندوستان کا دارالخلافہ دہلی ہے تو مسلمانوں کا قومی مرکز حیدرآباد ہے۔ جب کبھی ملت کو درپیش مسائل پر رہنمائی کی ضرورت پڑی ملک بھر کے مسلمانوں کی نظریں حیدرآباد کی طرف اٹھتی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملی ، مذہبی اور سیاسی امور میں حیدرآباد نے ملک کے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ حیدرآباد کو یہ اعزاز محض اس لئے حاصل تھا کیونکہ یہاں مخلص اور دیانتدار مذہبی ، سیاسی اور سماجی قیادت موجود تھی جس نے حکومتوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ اقتدار کی آنکھ میں آنکھ ملاکر بات کی۔ مصلحت اور چاپلوسی سے دور دور کا تعلق نہیں تھا۔ پتہ نہیں حیدرآباد کو کس کی نظر لگ گئی۔ شہر جو کبھی ہندوستانی مسلمانوں کا مرکز تھا، آج وہ موقع پرست قیادتوں کے مرکز کے طور پر اپنی شناخت بناچکا ہے ۔ حیدرآباد جو بے باک اور مخلص قیادتوں کیلئے جانا جاتا تھا، آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ مذہبی ، سماجی اور سیاسی قیادتوں نے مایوس کردیا ہے۔ جرأت اور بے باکی کی جگہ مصلحت اور مفاد پرستی نے لے لی ہے۔ جب تک قیادتوں کی ترجیحات ملت کے مسائل تھے ، اس وقت تک قوم نے قیادتوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور ان کی ہر آواز پر لبیک کہا ۔ قیادتوں پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ایک اپیل پر سروں کے سمندر سڑکوں پر دکھائی دیتے تھے اور قیادت کے فیصلہ پر کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ قیادت اور قوم میں اعتماد اور بھروسہ کا رشتہ اس قدر مضبوط اور مستحکم تھا کہ جس پارٹی کو چاہے اقتدار کی تخت پر بٹھاتے اور جسے چاہے تختہ پر لٹادیتے۔ بے لوث قائدین جیسے جیسے دنیا سے کوچ کرنے لگے ، قوم کا حفاظتی حصار کمزور ہونے لگا اور نئی قیادتوں کی اقتدار وقت سے قربت نے قوم سے دوری پیدا کردی۔ جب تک قیادت عوام سے جڑی رہی، حکومتوں پر خوف طاری رہا لیکن سیاستدانوں اور حکومتوں کی چالبازیوں کا شکار اور مفادات کے اسیر بن کر جب سے حکومتوں سے رشتوں کو استوار کرلیا، قوم سے رشتہ کمزور ہوگیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کے پاس نہ صرف قیادتوں بلکہ قوم کی وقعت اور اہمیت ختم ہوگئی۔ جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی اور بے چینی پیدا ہو تو حکومت قیادتوں کو اپنے محل میں طلب کر کے مطمئن کردیتی ہے اور قوم کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے ۔ قیادتوں اور عوام میں دوری ، تباہی اور زوال کی علامت ہے۔ دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے اور کمزور کرنے کیلئے طویل سازش کی ، اس میں آخر کار کامیابی حاصل ہوئی۔ مصلحت اور موقع پرست قیادتوں نے سودے بازی کرتے ہوئے قوم کو بے سہارا کردیا گیا۔ مذہبی پیشوا اور سیاسی قائدین رہبری کے لاکھ دعوے کرلیں لیکن مسلمانوں نے ناموس رسالتؐ کے مسئلہ پر ثابت کردیا کہ کسی قیادت کی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلہ کوئی سیاسی ہو تو مصلحت کی گنجائش تھی لیکن آقائے دوجہاں کی عظمت اور شان کے معاملہ میں غفلت اور کوتاہی ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ ملت کا درد رکھنے والی مرحوم قیادت اور آج کی بے حس قیادت میں فرق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 20 ، 25 سال قبل جب بیت المقدس کی توہین کی گئی تو اہل حیدرآباد نے تاریخی احتجاج کے ذریعہ ایمانی حرارت کا ثبوت دیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہو ، اہل حیدرآباد کا دل تڑپ اٹھتا تھا لیکن آج عبادتگاہوں کی شہادت پر بھی کوئی جنبش نہیں ہے۔ الٹا مسلمانوں کو احتجاج سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بقول علامہ اقبال متاع کارواں کے ساتھ احساس زیاں بھی جاتا رہا۔ مجرم ضمیری کا شکار قیادتوں کی بے عملی کے نتیجہ میں فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ ملک بھر میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ عبادتگاہوں اور شریعت کو نشانہ بنانے کی ہمت آگئی۔ بی جے پی زیر اقتدار نریندر مودی حکومت میں مخالف اسلام اور مسلم دشمن طاقتیں بے لگام ہوچکی ہیں۔ بابری مسجد کے تحفظ میں ناکامی کے بعد مخالف مسلم فیصلوں کا فلڈ گیٹ کھل گیا۔ بابری مسجد مسلمانوں کیلئے ایک امتحان تھی اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کی جرأت ، حوصلہ اور ایمانی حرارت کا امتحان لیا گیا۔ بابری مسجد کو ہارنے کے بعد مسلمانوںکے حوصلے پست ہوگئے کیونکہ قیادتوں نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی ۔ حکومت کو خوف تھا جس طرح شاہ بانو مقدمہ کے معاملہ میں مسلمانوں نے حکومت کو دستوری ترمیم پر مجبور کیا تھا ، اسی طرح بابری مسجد کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف مسلمان سڑکوں پر نکل آئیں گے لیکن ایک چوہا بھی بل کے باہر نہیں نکلا۔ مسلم قیادتوں نے عدلیہ کے فیصلہ کو قبول کرنے کا پہلے ہی اعلان کرتے ہوئے قوم کو پست ہمت بنادیا اور مخالفین کو یہ حوصلہ دیا کہ کچھ بھی ہوجائے قوم نہیں جاگے گی۔ پھر کیا تھا طلاق ثلاثہ پر پابندی کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی گئی ۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کرتے ہوئے ہندو اکثریتی ریاست میں تبدیلی کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اب تو NRC ، NPA اور CAA کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے اور رائے دہی کے حق سے محروم کرنے کی سازش ہے۔ قیادتیں جن کی کبھی عوام کے دلوں پر حکومت ہوا کرتی تھی، آج وہ درباری قیادت میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ حکومتوں کو جب کبھی ان کی ضرورت پڑتی ہے تو محض دربار سے بلاوا کیا آجائے ، گداگران سخن کے ہجوم نکل پڑتے ہیں۔ حسیناؤں کی طرح سج دھج کر صاحبان اقتدار کے محلات میں پہنچ جاتے ہیں جہاں لذیذ غذاؤں پر غریب مسلمانوں کے مسائل پر بات ہوتی ہے۔ محدث دکنؒ نے فرمایا تھا ’’ مذہبی شخصیتوں کو آخر کیا ہوگیا کہ وہ حسیناؤں کی طرح سجنے لگے ہیں‘‘۔ حکومت کی غذاؤں پر قوم کے مسائل پر بات کرنے والوں کو محترم خلیل اللہ حسینیؒ نے ’’دسترخوان اقتدار کی پھینکی ہوئی ہڈیاں‘‘ کہا تھا۔ مسلمانوں کو کمزور ، ناتوان ، نحیف اور مصلحتوں کا شکار قیادت سے نجات کب ملے گی ؟
آزادی کے 75 برسوں میں فسادات کے ذریعہ بارہا مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی۔ مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے بھی جب دل نہیں بھرا تو شریعت میں مداخلت اور شعائر اسلام سے گستاخی کا رجحان شروع ہوا۔ قرآن مجید کی بے حرمتی اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے واقعات پیش آئے ۔ سلمان رشدی کے بعد تسلیمہ نسرین نے گستاخی کی اور اسے ہندوستان میں پناہ دی گئی۔ وسیم رضوی کے ذریعہ اسلام کا مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی اور جب مسلمانوں نے تعاقب کیا تو اس نے دھرم پریورتن کرلیا اور قبرستان کے بجائے شمشان میں اپنی جگہ بنالی۔ پاکستانی نژاد طارق فتح بھی ہندوستان میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ بی جے پی ترجمان نپور شرما اور نوین جندال کی جانب سے گستاخانہ بیان کا معاملہ ابھی تھما نہیں تھا کہ حیدرآباد میں راجہ سنگھ نے بکواس کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ بی جے پی نے اگرچہ رکن اسمبلی کو پارٹی سے معطل کیا لیکن کھل کر مذمت نہیں کی گئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تلنگانہ کے پرامن ماحول کو بگاڑنے ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ نپور شرما کو معطل کیا گیا لیکن گرفتاری سے بچانے قانونی مدد کی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی رسوائی کے بعد بی جے پی کو معذرت خواہی کرنی پڑی۔ راجہ سنگھ کا معاملہ بھی دب جاتا ، اگر مسلمان جرأت ایمانی کا مظاہرہ نہ کرتے ۔ ملعون گستاخ کو پی ڈی ایکٹ کے تحت جیل بھیجنے کا سہرا عام مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے قیادتوں کا انتظار کئے بغیر محبت اور عقیدت رسول کا بے مثال مظاہرہ کیا اور حکومت گستاخ کو جیل بھیجنے پر مجبور ہوئی۔ مسلمان جب سڑکوں پر نکل کر حب رسول کا مظاہرہ کر رہے تھے، سیاسی اور مذہبی قیادتیں ایرکنڈیشنڈ کمروں سے مذمتی بیانات اور ویڈیو پیامات جاری کرنے میں مصروف رہے۔ حیدرآباد کے نوجوانوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ باشعور ہوچکے ہیں اور قیادت کے بغیر حکومت کو جھکاکر سارے ملک کیلئے ایک روشنی دی ہے۔ مسلمانوں کے اٹوٹ اتحاد کا مظاہرہ نہ ہوتا تو جمعہ سے عین قبل گستاخ کے خلاف کارروائی نہ ہوتی۔ ابتداء میں پولیس کے ذریعہ احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی گئی لیکن نوجوانوں کے عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ راجہ سنگھ کو پہلی مرتبہ گرفتار کر کے کمزور دفعات کے تحت عدالت میں پیش کرتے ہوئے بعض پولیس عہدیداروں نے ضمانت کی راہ ہموار کی۔ اگر مسلمان دوبارہ سڑکوں پر نہ آتے تو راجہ سنگھ کے خلاف محض رسمی کارروائی پر ہی اکتفا کیا جاتا۔ حکومت کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ مسلمان اب قیادتوں پر انحصار کرنے والے نہیں ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اس سنگین مسئلہ پر قیادتوں کیلئے اپنے محلات میں دسترخوان نہیں سجائے۔ پولیس نے احتجاجیوں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر گرفتاریاں عمل میں لائیں ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے یہ حیدرآباد نہیں بلکہ اترپردیش کا وارانسی شہر ہے۔ پولیس یہ بھول چکی تھی کہ یہاں ٹی آر ایس کی حکومت ہے نہ کہ آر ایس ایس کی۔ مسلمان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پولیس کا ظلم سرکاری احکام پر کیا گیا یا کوئی غیر سرکاری ہدایات تھیں؟ نامور شاعر معراج فیض آباد نے کیا خوب کہا ہے ؎
جو تھے سیاسی گھرانے والے سب ایک نکلے
جلانے والے بجھانے والے سب ایک نکلے