وقف قانون پر عبوری راحت …خطرہ ابھی ٹلا نہیں
مودی جی …مسلمان پنکچر نہیں ملک کو جوڑتے ہیں
رشید الدین
’’ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘۔ وقف ترمیمی قانون 2025 کی بعض دفعات پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم التواء کے بعد مسلمانوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اوقافی جائیدادوں پر منڈلاتا ہوا خطرہ ٹل چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے قانون کی 45 سے زائد ترمیمات سے صرف 3 کے بارے میں موقف کو جوں کا توں بحال رکھنے کی ہدایت دی ہے۔ عدالت العالیہ نے وقف بورڈ اور سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت، وقف بائی یوزر کے خاتمہ اور وقف کے تعین کے بارے میں کلکٹر کو مکمل اختیارات جیسے فیصلوں پر عمل آوری کو 5 مئی تک روک دیا گیا۔ مرکز کو جواب داخل کرنے کیلئے ایک ہفتہ کی مہلت دی گئی۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وشواناتھن پر مشتمل بنچ نے قانون وقف میں دستور کی خلاف ورزیوں کے چند ایک پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ حکومت کے جواب داخل کرنے کے بعد اصل بحث کا آغاز ہوگا اور قانون کی برقراری یا اسے کالعدم کرنے کا فیصلہ ہوگا۔ سماعت کے آغاز پر ہی چیف جسٹس نے دستور کی برقراری اور بالادستی کے حق میں جو فیصلہ کیا وہ یقیناً قابل ستائش و خیرمقدم ہے۔ ہندوستان میں عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری شبہ سے بالاتر ہے اور سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی قانون کے معاملہ میں اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ دستور کا تحفظ کرے گی۔ چیف جسٹس اور دیگر دو ججس نے سماعت کے پہلے دن اپنے سوالات سے مرکزی حکومت کو لاجواب کردیا۔ مرکزی حکومت کے وزراء امیت شاہ اور کرن رجیجو پارلیمنٹ میں سینہ ٹھوک کر کہہ رہے تھے کہ قانون میں کوئی خامی نہیں ہے لیکن جب ججس نے سوالات کئے تو 24 گھنٹے میں بھی جواب نہیں بن پڑا اور ایک ہفتہ کا وقت مانگا گیا۔ چیف جسٹس اور ساتھی ججس نے مرکز کے وکیل سے پوچھا کہ جب وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کو شامل کیا جارہا ہے تو کیا ہندو مذہبی اداروں میں مسلمانوں کو شامل کیا جائے گا؟ ۔ تروملا تروپتی دیواستھانم اور دیگر ہندو اداروں کے بارے میں مرکز سے موقف کی وضاحت طلب کی گئی۔ جب ہندو اداروں میں مسلمان رکن نہیں بن سکتا تو پھر وقف بورڈ جو ایک خالص مسلم ادارہ ہے اُس میں ہندو ارکان کی گنجائش کہاں اور کس طرح پیدا ہوئی۔ سرکاری وکیل نے ایک دن کا وقت مانگا اور پھر دوسرے دن بھی کوئی جواب نہیں تھا آخر میں ایک ہفتہ کی مہلت دیتے ہوئے 5 مئی کو سماعت مقرر کی گئی۔ سپریم کورٹ نے یقیناً دستور کے محافظ کا رول ادا کرتے ہوئے عبوری راحت دی ہے لیکن قانون پر مکمل روک نہیں لگائی گئی۔ قانون میں جملہ 45 سے زائد ترمیمات ہیں اور یہ تمام مخالف دستور اور اوقافی جائیدادوں کیلئے نقصاندہ ہیں۔ صرف 3 ترمیمات پر عبوری راحت کو قانون پر روک نہیں کہا جاسکتا۔ چونکہ وقف ترمیمی قانون 2025 مکمل طور پر قابل قبول نہیں ہے لیکن عبوری راحت پر مسلمانوں کو خوشیاں مناکر بے فکر اور غافل ہونے کی ضرورت نہیں۔ حقیقت میں ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے اور جب تک قانون کو مکمل طور پر واپس نہیں لیا جاتا مسلمانوں کو جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ قانون کے چند نکات کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن نکات پر سپریم کورٹ نے حکم التواء جاری کیا اُس بارے میں پارلیمنٹ میں امیت شاہ اور کرن رجیجو نے زبانی طور پر تیقن دیا تھا۔ 2025 سے قبل کی تمام وقف جائیدادوں کے غیر متنازعہ ہونے اور وقف بورڈ میں غیر مسلم کو شامل نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن بل میں تبدیلی کے بغیر منظوری دی گئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عدلیہ کے ذریعہ چند ایک ترمیمات کی ہدایت حاصل کرتے ہوئے ایک طرف مسلمانوں کو خوش کردیا جائے اور دوسری طرف اکثریتی طبقہ کو یہ تاثر دیا جائے کہ ہم نے تو قانون سازی کی تھی لیکن عدلیہ نے تبدیلی کی ہدایت دی ہے۔ گذشتہ 10 برسوں میں مسلمانوں اور شریعت کے معاملات میں عدلیہ کا ٹریک ریکارڈ اطمینان بخش کہا نہیں جاسکتا۔ بابری مسجد، طلاق ثلاثہ، دفعہ 370 ، کاشی اور متھورا کی مساجد پر دعویداری، سنبھل کی مسجد کے سروے کی اجازت جیسے معاملات میں مسلمانوں کو عدالت سے تلخ تجربہ ہوا ہے۔ بابری مسجد کی اراضی معاملہ میں تمام ثبوت، گواہ اور دستاویزات مسجد کے حق میں تھے۔ عدالت نے تسلیم کیا تھا کہ مسجد میں رات کی تاریکی میں مورتیاں بٹھائی گئیں۔ اتنا ہی نہیں مندر توڑ کر مسجد بنانے کی تھیوری بھی مسترد کردی گئی۔ ان سب کے باوجود آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی اراضی مندر کیلئے الاٹ کردی گئی۔ موجودہ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی میعاد 13 مئی کو ختم ہورہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ 5 مئی کو وقف ترمیمی قانون کیس کی وہ آخری سماعت کریں گے۔ جسٹس بی آر گوائی نئے چیف جسٹس ہوں گے جو صرف 6 ماہ کیلئے نومبر 2025 تک برقرار رہیں گے۔ اگر روزانہ کی اساس پر مقدمہ کی سماعت ہوتی ہے تو فیصلہ جلد آسکتا ہے ورنہ یہ معاملہ بھی زیر التواء مقدمات کی فہرست میں اضافہ بن کر رہ جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان عبوری راحت پر مطمئن ہوکر خواب غفلت کا شکار نہ ہوں بلکہ قانون سے مکمل طور پر دستبرداری تک جدوجہد جاری رکھیں۔ صرف اتحاد اور طاقت کے مظاہرہ سے ہی حکومت کو مجبور کیا جاسکتا ہے۔ سطح کے نیچے منڈلاتے طوفان سے چوکس رہیں۔ جوش اور خوشی میں خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ عدلیہ سے انصاف کی اُمید رکھیں ساتھ میں یہ نہ بھولیں کہ عدلیہ سے بھی تلخ تجربات ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ میں سماعت سے ایک دن قبل مرکزی وزیر کرن رجیجو نے سپریم کورٹ کو وقف قانون میں مداخلت نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ کرن رجیجو کی یہ صلاح تھی یا پھر سپریم کورٹ کو دھمکی‘ اس کا اندازہ صرف قانونی ماہرین کرپائیں گے۔ کرن رجیجو نے کس حیثیت سے عدلیہ کو مشورہ دیا اور اس پر عدلیہ کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
مسلمانوں سے نفرت کا جذبہ اب تیزی سے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد تک سرایت کرچکا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کی پسماندگی کا حوالہ پنکچر بنانے سے دیتے ہوئے اپنی ذہنیت کو آشکار کیا ہے۔ ہریانہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اگر وقف کے نام پر ہونے والی آمدنی کا ایمانداری سے استعمال کیا جائے تو میرے مسلمان نوجوانوں کو سائیکل کے پنکچر بناکر زندگی گذارنی نہیں پڑے گی۔ وزیر اعظم کی مسلمانوں سے یہ ہمدردی ہے یا پھر وہ انہیں گالی دے رہے ہیں اس کا اندازہ ہر شخص بخوبی کرسکتا ہے۔ غربت کیلئے کوئی اور مثال بھی پیش کی جاسکتی تھی لیکن نریندر مودی نے پنکچر بنانے کا حوالہ دیتے ہوئے نفرتی بریگیڈ کے نظریہ کو تقویت پہنچائی ہے۔ سیاسی مبصرین نے کہا کہ نریندر مودی کا یہ جملہ دراصل مسلمانوں کی توہین کے مترادف ہے۔ نریندر مودی سابق میں بھی مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرتی ذہنیت کا اظہارکرچکے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران مودی نے کہا تھا کہ ہندوؤں سے ان کی بھینس اور منگل سوتر چھین کر زائد بچے پیدا کرنے والوں کو دے دیا جائے گا۔ قبرستان اور شمشان کا تذکرہ نریندر مودی نے کیا تھا۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ دنگائیوں کی پہچان ان کے کپڑوں سے باآسانی کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کو پنکچر بنانے سے جوڑنے والے نریندر مودی پہلے اپنے ماضی میں جھانکیں تو بہتر رہے گا، خود نریندر مودی نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے ریلوے پلیٹ فارم پر چائے فروخت کی تھی۔ اگر کوئی ’’ چائے والا ‘‘ مسلمانوں کو پنکچر جوڑنے والا کہے تو ہر کسی کو ہنسی ضرور آئے گی۔ وزیر اعظم کو جاننا چاہیئے کہ مسلمان پنکچر نہیں بلکہ ملک کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ مسلمان صرف پنکچر نہیں بناتے بلکہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے ہندوستان کیلئے میزائیل تیار کئے تھے اور دنیا انہیں ’میزائیل میان ‘کے نام سے جانتی ہے۔ نریندر مودی اُن مسلمان پڑوسیوں کو بھول رہے ہیں جنہوں نے عیدین کے موقع پر اُن کے گھر خصوصی پکوان روانہ کیا تھا اور خود مودی کے مطابق عید کے دن اُن کے گھر پر کوئی پکوان نہیں ہوتا اور پڑوسی مسلمانوں کی ڈِشیس سے سیر ہوتے رہے۔ پڑوسی مسلمان تو پنکچر بنانے والے نہیں تھے۔ وزیر اعظم کو حوالدار عبدالحمید، اشفاق اللہ خاں، خان عبدالغفار خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، فخر الدین علی احمد کو بھولنا نہیں چاہیئے۔ وہ انڈیا گیٹ پر ملک پر جان نچھاور کرنے والوں کے ناموں کو دیکھیں تو اُن میں 60 فیصد سے زائد مسلمان نظر آئیں گے۔ فلموں میں دلیپ کمار، امجد خان، محمود، اجیت سے لیکر شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان، سیف علی خان اور ارباز خان یہ تمام مسلمان ہیں۔ کھیل کے میدان میں منصور علی خان پٹوڈی، سید کرمانی، اظہر الدین سے لیکر محمد سمیع اور محمد سراج بھی مسلمان ہیں جنہوں نے دنیا میں ہندوستان کے پرچم کو بلند کیا۔ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کی ترقی میں مسلمانوں نے اہم رول ادا نہ کیا ہو۔ کانگریس کو صدارت پر مسلمان کو فائز کرنے اور لوک سبھا الیکشن میں 50 فیصد ٹکٹ مسلمانوں کو الاٹ کرنے کی مفت صلاح دینے والے نریندر مودی یہ بتائیں کہ اُن کی پارٹی نے ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا؟ گذشتہ 10 برسوں میں مودی حکومت میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے۔ بی جے پی میں 2 مسلم چہرے مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کو سیاسی طور پر سنیاس دینے کا کام نریندر مودی نے ہی کیا ہے۔مسلمانوں سے اگر ہمدردی ہو تو 10 برسوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئے گئے فیصلوں سے دستبرداری اختیار کریں۔ زبانی ہمدردی تو مسلمانوں کی غربت کو دور نہیں کرسکتی۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے: ؎
اُصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو زندہ نظر آنا ضروری ہے