کئی حلقوںمیں بی جے پی کو فائدہ، بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس سے مفاہمت کا چیلنج
حیدرآباد ۔ 24 ۔ ڈسمبر (سیاست نیوز) سابق قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے الزام عائد کیا کہ جھارکھنڈ اسمبلی نتائج میں مجلس حقیقی معنوں میں ’’ووٹ کٹوا‘‘ کی حیثیت سے بے نقاب ہوچکی ہے ۔ نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے مجلس نے کئی حلقوں میں بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کی۔ اس طرح مجلس کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس نے 16 اسمبلی حلقوں میں مقابلہ کیا لیکن اسے مجموعی طور پر ایک لاکھ 73 ہزار 980 ووٹ حاصل ہوئے جو مجموعی رائے دہی کا صرف 1.2 فیصد ہے۔ مجلس نے کامیابی کیلئے انتخابات میں حصہ نہیں لیا بلکہ اس کا مقصد سیکولر ووٹ کو تقسیم کرتے ہوئے بی جے پی امیدواروں کو فائدہ پہنچانا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ مجلس کی موجودگی نے بی جے پی کو دو نشستوں پر بآسانی کامیابی دلائی ہے۔ ان حلقوں میں بی جے پی امیدوار کی اکثریت سے زیادہ ووٹ مجلس کو حاصل ہوئے ۔ انہوں نے مانڈو اسمبلی حلقہ کا حوالہ دیا، جہاں بی جے پی امیدوار جے پرکاش بھائی پٹیل نے صرف 2068 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔ اس حلقہ میں مجلس کے امیدوار کو 13972 ووٹ حاصل ہوئے ۔ بشرام پور نشست پر مجلس کو 6.14 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ بی جے پی امیدوار نے 4.52 فیصد ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ باقی 14 نشستوں پر بھی مجلس کی موجودگی سے سیکولر ووٹ تقسیم ہوئے اور بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جن 16 نشستوں پر مجلس نے مقابلہ کیا تھا ان میں سے 6 پر بی جے پی کو کامیابی ملی۔ محمد علی شبیر نے جھارکھنڈ کے رائے دہندوں سے اظہار تشکر کیا جنہوں نے نہ صرف فرقہ پرست بی جے پی بلکہ اس کی خفیہ حلیف مجلس کو 10 نشستوں پر مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجلس مقابلہ نہ کرتی تو جے ایم ایم ، کانگریس اور آر جے ڈی کو مزید نشستوں پر کامیابی حاصل ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹرا میں مجلس نے 19 نشستوں پر بی جے پی اور شیوسینا کی کامیابی میں مدد کی تھی ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ مجلس کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے اور اسے مسلمانوں کو دھوکہ دہی کی پالیسی ترک کرنی چاہئے ۔ انہوں نے مجوزہ بلدی انتخابات میں مجلس کو ٹی آر ایس کے ساتھ کھلے عام مفاہمت کا چیلنج کیا اور کہا کہ یہ دونوں پارٹیاں کبھی بھی مفاہمت نہیں کریں گی ۔ مجلس مسلم آبادی والے علاقوں میں مقابلہ کرتے ہوئے ووٹ تقسیم کرنا چاہے گی تاکہ کانگریس کو نقصان ہو اور ٹی آر ایس اور بی جے پی کو فائدہ پہنچے۔