بی جے پی نے ہریانہ میں ہار مان لی
الیکشن کہیں پر … مودی کی مہم دوسری جگہ
مودی راج میں مساجد اور درگاہ پر چلا بلڈوزر
رشیدالدین
نریندر مودی نے کیا ہریانہ میں شکست تسلیم کرلی ہے؟ یہ سوال ملک کے سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے ، حتیٰ کہ بی جے پی حلقوں میں بھی اس سوال کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ چناؤ چاہے لوک سبھا کے ہوں یا کسی ریاستی اسمبلی کے، مودی۔امیت شاہ کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں لیکن ہریانہ کی انتخابی مہم سے دونوں کی دوری نے یہ تاثر پیش کیا ہے کہ رائے دہی سے قبل ہی مودی اور بی جے پی نے ہار مان لی۔ لوک سبھا انتخابات 2024 میں واضح اکثریت اور 400 پار کا خواب چکنا چور ہوگیا اور حلیف پارٹیوں کی بیساکھیوں کے سہارے بنائی گئی حکومت کا حال شاخ نازک پہ آشیانہ کی طرح ہے جو ناپائیدار ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت سے محرومی کے بعد آر ایس ایس اور سنگھ پریوار بھی نریندر مودی میجک کے بارے میں اندیشوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ 2014 سے مودی میجک کے عروج کا آغازہوا تھا اور 2024 کے آتے آتے میجک بے اثر اور دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی ۔ امیت شاہ پر تکیہ کیا گیا تو بی جے پی یکے بعد دیگرے ریاستوں سے محروم ہوجائے گی۔ جموں و کشمیر اور ہریانہ کے چناؤ مودی ۔ امیت شاہ کیلئے ایسڈ ٹسٹ ہیں کیونکہ لوک سبھا چناؤ کے بعد ریاستوں کی سطح پر یہ پہلا امتحان ہے ۔ ہریانہ میں بی جے پی کی 10 سالہ حکمرانی کی بقاء اور برقراری کا سوال ہے جبکہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی برخواستگی اور ریاست کا درجہ ختم کرنے میں مودی ۔ شاہ جوڑی کا اہم رول رہا۔ بی جے پی کے سرکردہ قائدین جیسے واجپائی اور اڈوانی جو کام نہیں کرسکے، اسے 5 برسوں میں اس جوڑی نے کر دکھایا ، لہذا دونوں ریاستوں کے نتائج کے لئے یہ دونوں ہی ذمہ دار ہوں گے ۔ جموں و کشمیر کا سیاسی موسم بی جے پی کے حق میں سازگار دکھائی نہیں دے رہا ہے تو دوسری طرف ہریانہ میں مخالف حکومت لہر سے بی جے پی کے امکانات پر گہن لگ چکا ہے۔ جہاں تک ہریانہ میں رائے دہی سے قبل شکست تسلیم کرنے کا معاملہ ہے، یہ سوال اس لئے بھی ہے کیونکہ ہریانہ کی انتخابی مہم کے فیصلہ کن مرحلہ میں مودی ۔ امیت شاہ نے مہم سے دوری اختیار کرلی ۔ کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے والی اس جوڑی کو شائد یہ احساس ہوچکا ہے کہ ہریانہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ الیکشن ہریانہ میں ہے اور مودی جھارکھنڈ جبکہ امیت شاہ مہاراشٹرا کے دورہ پر ہیں۔ فیصلہ کن مہم کے دوران دونوں کا ہریانہ کا میدان چھوڑ دینا محض اتفاق نہیں بلکہ امکانی نتائج کی سمت ایک اشارہ ہے۔ ہریانہ میں چناؤ ہے لیکن مودی جھارکھنڈ میں چناوی تقاریر کر رہے تھے حالانکہ وہاں الیکشن کیلئے ابھی وقت باقی ہے۔ ہریانہ کو بچانے کے بجائے جھارکھنڈ کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی عوام سے اپیل کرتے ہوئے مودی نے ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیا۔ آخر ایسی کیا بات ہوگئی کہ مودی اور امیت شاہ ہریانہ سے روٹھ گئے اور جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا کا رخ کرلیا۔ 2014 کے بعد سے آج تک یہ روایت رہی کہ جس ریاست میں الیکشن ہو وہاں مودی کی کم سے کم 10 تا 15 ریالیاں ضرور ہوتی ہیں جبکہ امیت شاہ 5 تا 8 ریالیوں سے خطاب کرتے ہیں۔ مودی کا جادو اور امیت شاہ کا چانکیہ کا رول شائد اپنی اہمیت کھونے لگا ہے ۔ مقبولیت اور عوام پر اثر انداز ہونے کے معاملہ میں نہ صرف دونوں کمزور ہوگئے بلکہ پارٹی کے اندر مخالفین کے نشانہ پر ہیں۔ مودی نے 2017 میں اترپردیش کے چناؤ میں 17 انتخابی ریالیاں کی تھیں جبکہ 2022 میں ایک درجن ریالیوں سے خطاب کیا۔ ہریانہ کے 2019 چناؤ میں مودی نے 7 ریالیوں سے خطاب کیا تھا اور تین مرتبہ سرکاری دورہ پر ہریانہ گئے تھے۔ الغرض جیت کی مشین کی طرح شناخت رکھنے والے مودی اس بار ہریانہ سے فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ شائد وہ شکست کا ٹوکرا اپنے سر لینے تیار نہیں۔ ہریانہ کی فیصلہ کن انتخابی مہم کے دوران مودی کی جھارکھنڈ میں انتخابی تقاریر کا عوام نے خوب مذاق اڑایا۔ کسی نے کہا کہ دراصل مودی جھارکھنڈ سے ہریانہ کی مہم چلا رہے تھے جبکہ امیت شاہ مہاراشٹرا سے ہریانہ مہم پر کنٹرول کر رہے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مودی نے جھارکھنڈ کو ہریانہ کا حصہ سمجھ لیا یا پھر انہیں یاد نہیں رہا کہ الیکشن ہریانہ میں ہے ، جھارکھنڈ میں نہیں۔ ویسے بھی طبعی عمر کو پہنچنے کے بعد انسان کا یہی حال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے ریٹائرمنٹ کی عمر کا تعین کیا جاتا ہے کیونکہ طبعی عمر کے بعد حافظہ ساتھ نہیں دیتا اور صلاحیتیں ساتھ چھوڑنے لگتی ہیں۔ بی جے پی میں ریٹائرمنٹ کے لئے 75 سال کی عمر مقرر کی گئی ہے اور نریندر مودی اس عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس نے خفیہ طریقہ سے نریندر مودی کے متبادل کی تلاش شروع کردی ہے۔ مرکز میں آئندہ پانچ برسوں میں حکومت کا کیا ہوگا اور مودی کی وزارت عظمیٰ پر برقراری کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں شروع ہوچکی ہیں۔ مودی میجک جو کبھی سر چڑھ کر بولتا رہا ، آج اپنا اثر کھونے لگا ہے۔ مودی کی لچھے دار باتیں اور اپوزیشن کو نشانہ بنانے کا وہ نرالہ انداز ختم ہوچکا ہے۔ ان کے جارحانہ تیور ، گاندھی پریوار کو نشانہ بنانے داماد سے لے کر 10 جن پتھ کا تذکرہ اور راہول گاندھی کو گھیرنے کا انداز عمر کے ساتھ ساتھ ماند پڑ چکا ہے۔
ہریانہ میں بی جے پی کے کمزور موقف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو مقامی قائدین کی تائید حاصل نہیں ہے۔ جب کبھی نریندر مودی یا امیت شاہ نے ہریانہ کا دورہ کیا، ریالی اور جلسہ عام کے تمام تر انتظامات کی گجرات کے صنعت کاروں کو ذمہ داری دی گئی ۔ دراصل 10 سالہ حکمرانی کے باوجود ہریانہ کے صنعت کار بی جے پی کا ساتھ دینے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ہریانہ میں کئی سرکردہ قائدین کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں۔ مودی اس لئے بھی ہریانہ سے دور ہیں کیونکہ صرف بھاشن سے ووٹ حاصل کرنے کا زمانہ گزرچکا ہے۔ دوسری طرف جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی برخواستگی اور ریاست کا موقف ختم کرنے سے انتخابی مہم مقامی پارٹیوں کے ہاتھ میں آچکی ہے۔ جموں میں بی جے پی کو کسی قدر تائید مل سکتی ہے لیکن کشمیر اور لداخ میں مقامی پارٹیوں کا غلبہ رہے گا۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس اتحاد کے امکانات زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی نے ریاست کا موقف بحال کرنے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن عوام بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگر کشمیر اور ہریانہ میں بی جے پی کو شکست ہوتی ہے تو مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتخابی مہم کے دوران جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیاں بالواستہ طور پر بی جے پی کی انتخابی مہم میں مدد کی طرح چلائی جاتی ہیں۔ نریندر مودی کی ریاست گجرات میں گزشتہ دنوں مساجد ، درگاہ اور قبرستانوں سمیت 40 سے زائد مکانات پر بلڈوزر چلادیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر میں بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف فیصلہ سنایا ، باوجود اس کے بی جے پی زیر اقتدار ریاستیں سپریم کورٹ کا احترام کرنے تیار نہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ عدول حکمی کے باوجود ریاستوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی سے گریز کر رہا ہے۔ اترپردیش ، مہاراشٹرا ، راجستھان ، مدھیہ پردیش اور آسام میں حالیہ عرصہ میں مسلمانوں کی عبادتگاہوں اور دینی مدارس پر بلڈوزر چلائے گئے ۔ دراصل ملک میں مخالف مسلم سرگرمیوں کا مقصد بی جے پی کے ووٹ بینک کو مستحکم کرنا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ مسلمانوں نے صورتحال کا مقابلہ کرنے کے بجائے صبر اور تحمل کے نام پر بزدلی اور کمزوری کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ بلڈوزر کارروائیوں پر صرف عدالت سے رجوع ہونا مسئلہ کا حل نہیں کیونکہ عدالتیں انصاف رسانی میں کس حد تک غیر جانبدار ہیں اس کا اندازہ حالیہ فیصلوں سے ہوتا ہے۔ سکھ برادری کے قائدین نے کہا کہ مسلمان جو عظیم تاریخ رکھتے ہیں، آج اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھلا چکے ہیں۔ سکھ قائدین نے صحیح کہا کہ کوئی بھی حکومت سکھوں کے خلاف قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتی کیونکہ سکھ قوم اپنے مذہبی معاملات میں جارحانہ تیور اختیار کرتی ہے۔ ملک کے کسانوں نے مسلمانوں کو اپنے احتجاج سے سبق سکھایا ہے کہ مودی جیسے ضدی حکمراں کو مخالف کسان قوانین کو واپس لینا پڑا۔ مسلمان صرف رسمی احتجاج کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں ، حالانکہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کی حیثیت سے اگر مسلمان ملک بھر میں کچھ دیر کیلئے سڑکوں پر نکل آنے کا فیصلہ کرلیں تو سارا ملک ٹھپ ہوجائے گا۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
جھوٹی آوازوں کا لشکر سچ سے ڈرتا ہے بہت
ہم بھی بولیں گے ذرا موقع تو آنے دیجئے