2001 میں نسرین کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی گئی تھی ۔ شوہر اجمل کو خودسپردگی کا حکم
نئی دہلی۔ 16 ڈسمبر (ایجنسیز) سپریم کورٹ نے ملک میں جہیز کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ جہیز کے خلاف قوانین موجود ہیں، لیکن ان کا نفاذ کمزور اور بعض اوقات غلط استعمال کا شکار ہے، جس کے باعث یہ سماجی برائی اب بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے۔یہ ریمارکس جہیز کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سامنے آئے، جس میں ایک 20 سالہ خاتون کو اس کے شوہر اور ساس نے جہیز کیلئے مٹی کا تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا تھا۔جسٹس سنجے کرول اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ پر مشتمل بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ جہیز جیسے جرم سے نمٹنے کیلئے صرف قانونی دفعات کافی نہیں بلکہ اجتماعی سماجی کوششیں ناگزیر ہیں۔ عدالت نے تمام ہائی کورٹس کو ہدایت دی کہ وہ تعزیرات ہند کی دفعہ 304-B (جہیز کی وجہ سے موت) اور دفعہ 498-A (شادی شدہ عورت پر ظلم) کے تحت زیر التواء مقدمات کی تعداد معلوم کریں۔عدالت نے جہیز کو ایک سفاک سماجی برائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف 20 سال کی ایک نوجوان خاتون کو اس لیے جان سے ہاتھ دھونا پڑا کیونکہ اس کے والدین ایک رنگین ٹی وی، ایک موٹر سائیکل اور 15 ہزار روپے نقد فراہم نہیں کر سکے۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک انسانی جان کی قیمت اتنی معمولی اشیاء تک محدود ہو چکی ہے؟یہ 24 سال پرانا مقدمہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیوں پر غور کریں جن سے یہ آئینی اصول مضبوط ہو کہ شادی کے دونوں فریق برابر ہیں اور کوئی بھی کسی کا ماتحت نہیں۔یہ حکم الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اتر پردیش حکومت کی اپیل پر دیا گیا، جس میں 2001 میں شوہر اجمل بیگ اور اس کی والدہ کو بری کر دیا گیا تھا۔ نسرین کی شادی کے بعد مسلسل جہیز کا مطالبہ کیا گیا اور برسوں تک اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔2001 میں نسرین کو مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی، جب کہ موقع پر پہنچنے پر اس کے ماموں نے اسے مردہ پایا۔ ٹرائل کورٹ نے اجمل اور اس کی ماں کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی، مگر ہائی کورٹ نے گواہوں کی بنیاد پر انہیں بری کر دیا تھا۔سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کی اپیل منظور کرتے ہوئے اجمل اور اس کی والدہ کی سزائیں بحال کر دیں، تاہم 94 سالہ خاتون کو عمر کے پیش نظر قید کی سزا نہیں دی گئی۔ عدالت نے اجمل کو چار ہفتوں کے اندر خودسپردگی کا حکم دیا تاکہ وہ عمر قید کی سزا کاٹ سکے۔عدالت نے آخر میں کہا کہ اگرچہ اس کیس میں انصاف ہوا، مگر ایسے بے شمار واقعات ہیں جہاں جہیز کے ملزمان سزا سے بچ نکلتے ہیں، جو پورے نظام کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔
