جہیز قانون کے غلط استعمال پر سپریم کورٹ کا اظہار تشویش

   

نئی دہلی: انجینئر اتل سبھاش کی خودکشی کا معاملہ سرخیوں میں ہے۔ اتل کیخلاف ان کی بیوی کی طرف سے جہیز کے لیے ہراسانی سمیت کئی مقدمات درج کرائے گئے تھے۔ اتل اس سے پریشان ہو گئے اور اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اتل کی خودکشی کی خبروں کے درمیان سپریم کورٹ نے جہیز قانون کے غلط استعمال پر تشویش ظاہر کی ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ جہیز کے لیے ہراساں کرنے کے معاملات میں عدالتوں کو قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے محتاط رہنا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ شوہر کے اپنے رشتہ داروں کو پھنسانے کے رجحان کے پیش نظر خاندان کے معصوم افراد کو غیر ضروری پریشانی سے بچایا جائے۔جسٹس بی وی ناگارتھنا اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ کی بنچ نے کہا کہ خاندان کے افراد کے ناموں کے ذکر کو پہلے ہی روک دیا جانا چاہئے جب تک کہ ازدواجی تنازعہ سے پیدا ہونے والے مجرمانہ کیس میں خاندان کے افراد کے فعال ملوث ہونے کے الزامات نہ ہوں۔بنچ نے کہا کہ عدالتی تجربے سے یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ازدواجی تنازعہ کی صورت میں اکثر شوہر کے خاندان کے تمام افراد کو ملوث کرنے کا رجحان ہوتا ہے۔ٹھوس شواہد یا مخصوص الزامات کے بغیر عمومی اور وسیع الزامات مجرمانہ استغاثہ کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ اس لیے سپریم کورٹ نے کہا کہ ایسے معاملات میں عدالتوں کو احتیاط برتنی چاہیے تاکہ قانونی دفعات اور قانونی عمل کے غلط استعمال کو روکا جا سکے اور خاندان کے معصوم افراد کو غیر ضروری پریشانی سے بچایا جا سکے۔عدالت نے یہ مشاہدہ تلنگانہ ہائی کورٹ کے اس حکم کو مسترد کرتے ہوئے کیا جس میں ایک خاتون کی طرف سے اس کے شوہر، اس کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف دائر جہیز ہراسانی کے مقدمہ کو خارج کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ترمیم کے ذریعے تعزیرات ہند (آئی پی سی) میں دفعہ 498اے کو شامل کرنے کا مقصد عورت کے ساتھ اس کے شوہر اور اس کے خاندان کے افراد کے ذریعہ ظلم کو روکنا ہے، تاکہ ریاست کی جانب سے فوری مداخلت کو یقینی بنایا جاسکے۔بنچ نے کہا کہ شوہر اور اس کے خاندان کیخلاف بیوی کی طرف سے ذاتی انتقام کو برقرار رکھنے کے لیے آئی پی سی سیکشن 498اے (شوہر یا اس کے رشتہ داروں کی طرف سے بیوی کے خلاف ظلم) جیسی دفعات کا غلط استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔عدالت نے یہ بھی کہا، ہم ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ آئی پی سی کی دفعہ 498اے کے تحت ظلم کا سامنا کرنے والی کوئی بھی خاتون خاموش رہے اور خود کو شکایت کرنے یا کوئی مجرمانہ کارروائی شروع کرنے سے باز رہے۔ بنچ نے کہا کہ (بس اتنا کہنا ہے کہ) ایسے معاملات کو فروغ نہیں دینا چاہئے۔