جہیز کی ظالمانہ رسم اور ہماری ذمہ داریاں ✍🏼مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب

,

   

جہیز کی ظالمانہ رسم اور ہماری ذمہ داریاں✍🏼مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب(ترجمان و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ اکی اس دنیا میں بعثت کا مقصد جہاں مخلوق کو اس کے خالق سے جوڑنا تھا ، وہیں یہ بھی تھا کہ انسان نے اپنے آپ پر خود ساختہ رسم و رواج کا جو بوجھ رکھ لیا ہے، اس کو اس سے آزاد کیا جائے : ’’ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمُ‘‘( الاعراف : ۱۵۷) چناچہ اسلام سے پہلے لوگوں نے بہ طور خود جو مشکل قوانین اپنے آپ پر مسلط کر لئے تھے، قرآن نے ان کو دور فرمایا، اور ایسے احکام دیئے جو انسانی مصلحت سے ہم آہنگ بھی ہیں اور ان کے لئے قابل برداشت بھی، اسی لئے قرآن نے بہ طور اُصول یہ بات کہہ دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو اس کی قوت اور گنجائش کے لحاظ سے ہی احکام کا مکلف بناتے ہیں : ’’ لَا یُکَلِّفَ اﷲُ نَفْسٰا اِلَّا وُسْعَھَا‘‘ (البقرۃ:۲۸۶) نیز اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ اپنے بندوں کو حرج اور تنگی میں مبتلا کرے؛ بلکہ وہ تو سہولت و آسانی اور کشائش و فراخی چاہتا ہے : ’’ یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ‘‘ ۔(البقرۃ:۱۸۵)جیسے اللہ تعالیٰ نے عبادات کو آسان رکھا ہے، اور اللہ کی بندگی کے سیدھے سادھے بے خرچ کے اور کم خرچ کے طریقے رکھے ہیں ، معاملات کو اللہ نے اس سے بھی زیادہ آسان رکھا ہے اور جیسے اللہ نے اپنے تکوینی نظام میں ایسی چیزوں کو جو مخلوق کے لئے ناگزیر ہیں، وافر مقدار میں رکھا ہے اور بے قیمت و محنت فراہم کی ہیں، جیسے پانی اور ہوا ، اسی طرح نظامِ شریعت میں بھی انسانی زندگی کی فطری ضروریات کو آسان رکھا گیا ہے، ان ہی ضروریات میں ایک نکاح ہے ، نکاح انسان کی فطری ضرورت ہے ، جس سے ایک طرف نسل انسانی کی افزائش متعلق ہے اور دوسری طرف اخلاق و کردار اور قلب ونگاہ کی حفاظت ؛ اسی لئے اسلام میں نکاح کی بڑی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، آپ انے نوجوانوں کو تلقین فرمائی کہ بہ شرطِ قدرت وہ جلد نکاح کر لیا کریں، لڑکیوں کے اولیاء سے فرمایا کہ مناسب رشتے ہاتھ آجائیں تو شادی میں تاخیر نہ کی جائے، آپ انے نکاح کو اپنی اور انبیاء سابقین کی سنت قرار دیا، اور تجرد کی زندگی کو ناپسند فرمایا۔ نکاح کو آسان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حلال کو آسان کیا جائے تو حرام سے بچنا بھی آسان ہوگا اور اگر حلال کو دشوار کر دیا جائے تو حرام سے بچنا بھی دشوار ہوگا؛ چنانچہ جن ممالک میں نکاح کی شرح کم ہے اور تجرد کی زندگی گذارنے والوں کا اوسط زیادہ ہے ، وہاں زنا اورفواحش کی کثرت ہے، وقتی سکون حاصل کرنے کے لئے منشیات کا استعمال عام ہے، خاندانی نظام بکھر چکا ہے اور برائیاں ایک سیلابِ بلابن کر سماج کے رگ و ریشہ میں سماگئی ہیں، اس لئے کوئی بھی ایسی بات جو نکاح کا راستہ روکنے والی ہو اور لڑکوں یا لڑکیوں کو تجرد کی زندگی پر مجبور کرتی ہو سماج کے لئے سمِ قاتل ہے۔ آج جو چیزیں شادی بیاہ کے معاملہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، ان میں سرفہرست جہیز اور گھوڑے جوڑے کا مسئلہ ہے ، اس رواج نے سماج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ، اس کا سب سے شرمناک پہلو محض جہیز کے لئے شادی شدہ عورتوں کو جلانے اور ہلاک کرنے کے واقعات ہیں ، یکم اگست ۱۹۹۱ء کی بی ، بی ، سی کے ایک نشریہ کے مطابق ۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۹ء میں گیارہ ہزار سے زیادہ ہندوستان میں جہیزی اموات کے واقعات ہوئے ہیں، ۱۹۹۴ء میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر دن جہیز کے مسئلہ کی وجہ سے سترہ اموات واقع ہوئی ہیں، ۱۹۹۷ء میں چھ ہزار سے زیادہ جہیزی اموات کے واقعات ہوئے، ۱۹۴۷ء سے چالیس سال کے عرصہ میں بہتر ہزار نوجوان عورتیں ہندوستان میں جہیز کی نزاع کی وجہ سے مار ڈالی گئیں۔ (دیکھئے : ماہنامہ ہدایت، جے پور ، جلد : ۸ ، شمارہ : ۹، صفحہ : ۲۵- ۲۶) جہیز کے اس ناروا رسم و رواج نے جسم فروشی کو بھی بڑھاوا دیا ہے، ایک سروے کے مطابق ملک میں گیارہ سو ایسے علاقے ہیں جو جسم فروش کے لئے بد نام ہیں، ۲۳ لاکھ عورتیں پیشہ ورانہ طور پر اس بُرائی میں مبتلا ہیں اور ان کے بچوں کی تعداد اکیاون لاکھ ہے ، سروے کے مطابق ہر سال ۲۵ ہزار لڑکیاں اس حیا سوز پیشہ میں داخل ہورہی ہیں ، ( سہ روزہ دعوت ، نئی دہلی ۱۶ ؍ اپریل ۱۹۹۹ء) — اسی طرح لڑکیوں کی قبل از پیدائش قتل کا سلسلہ بھی روز افرزوں ہے، اسی لئے جنوری ۱۹۹۶ء میں دورانِ حمل جنس کی شناخت کی غرض سے الٹراسونو گرافی پر پابندی عائد کی گئی؛ لیکن کتنے ہی جوڑے ہیں، جو اس پابندی کو خاطر میں نہیں لاتے؛ چنانچہ ہندوستان میں ہر سال ایک کروڑ بارہ لاکھ اسقاطِ حمل کے واقعات ہوتے ہیں، اور ان واقعات میں ہر سال بیس ہزار عورتیں موت کا شکار ہوجاتی ہیں، ( اسلامی نظام معاشرت اور جہیز کی رسم ، عمر حیات غوری ، صفحہ : ۵۲) یہ اسقاطِ حمل کے واقعات زیادہ تر ناجائز حمل اور قبل از وقت لڑکیوں کی شناخت سے متعلق ہیں۔ راجستھان کے اضلاع باڑمیر ، جیسلمیر نیز ملک کے بعض دوسرے علاقوں میں پیدائش کے بعد بھی ہفتہ دس روز کے اندر لڑکیوں کو زہر کھلا کر یا کسی اور طرح مار ڈالنے کا رواج ہے ؛ چنانچہ راجستھان کے ضلع باڑ میر کے دیوارا گاؤں میں ایک عجیب واقعہ یہ پیش آیا کہ ۱۹۹۹ء میں وہاں ایک سو دس برسوں کے بعد ایک بارات آئی، ( سہ روزہ دعوت ، نئی دہلی ، ۴ ؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء ) — کیا اس جدید جاہلیت نے قدیم جاہلیت کو بھی شرمسار نہیں کردیا ہے، ؟ یہ فحاشی ، تجرد کا رجحان، اور لڑ کیوں کے قتل وغیرہ کے واقعات کے لئے ایک اہم محرک یہی جہیز اور گھوڑے جوڑے کی بلا ہے، ایک طرف ملک میں غریبوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، اور دوسری طرف ایک طبقہ داد عیش دینے اور اس عیش کے اظہار و نمائش میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے کوشاں ہے،بمبئی کے وان کھیڑے اسٹیڈیم میں ۱۹۹۰ء میں ایک تقریب ِشادی منعقد ہوئی، جس میں تیس ہزار لوگوں نے شرکت کی اور بتایا جاتا ہے کہ ہیرے جواہرات کے ایک تاجر نے اسی بمبئی میں اپنی بیٹی کی شادی پر تیس کرروڑ روپے خرچ کئے، ( سہ روزہ دعوت ، نئی دہلی ، ۱۶ ؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء)ممتاز قائد جے للیتا کے منھ بولے بیٹے کی شادی کی مدہوش کر دینے والی تقریبات اور روشنی اور آواز کا سیلاب شاید ابھی تک لوگوں کو یاد ہو ، بعض ایسی شادیاں بھی اخبارات کے صفحات پر آچکی ہیں جن میں پورا ہوائی جہاز شادی کے لئے ریزرو کیا گیا — ایک ایسا ملک جس میں لاکھوں انسان بھوکوں پیٹ سو جاتے ہوں اور ہر روز ہزاروں مریض اپنی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اس لئے جان دے دیتے ہوں کہ ان کے پاس دوا وعلاج کے لئے کوئی پیسہ نہیں ، ایسے سماج میں ایک طبقہ کا اس طرح داد عیش دینا انسانیت کے ساتھ کیسا مذاق ہے؟؟ اسلامی نقطۂ نظر اس سلسلہ میں بالکل واضح ہے، اسلام نے نکاح میں تمام مالی ذمہ داریاں مردوں پر رکھی ہیں، مہر اس کے ذمہ ہے، ولیمہ اسے کرنا ہے، بیوی کے نفقہ کی ذمہ داری اس پر ہے ، بچوں کی پرورش کا بوجھ اسے برداشت کرنا ہے ، خود کمانا ہے اور پورے گھر کی ضروریات پوری کرنا ہے ، اسی باعث تو اللہ تعالیٰ نے مرد کو ’’ قوام ‘‘ یعنی سربراہِ خاندان بنایا ہے ، اس لئے مرد کا عورت سے نکاح کے موقع پر یا نکاح کے بعد کچھ لینا در حقیقت ننگ و عار کی بات ہے، رسول اللہ انے خود ایک سے زیادہ نکاح فرمائے، اپنی صاحبزادیوں کا نکاح کیا اورآپ کے جاں نثار رفقاء کے بہت سے نکاح آپ کے سامنے ہوئے؛ لیکن نہ جہیز اور نہ مردوں کی طرف سے کوئی مطالبہ ، حضرت خدیجہ ؓکا حضرت زینبؓکو سونے کا ہار دینے کا ذکر ملتا ہے ؛ لیکن ایک تو یہ واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے ، دوسرے اس کی صراحت نہیں کہ نکاح کے وقت ہی ہار دیا ہو، رسول اللہ انے حضرت فاطمہؓکے لئے کچھ گھریلو اشیاء بستر ، تکئے ، مشکیزہ وغیرہ بنوائے ؛ لیکن حدیث و سیرت کی کتابوں میں یہ صراحت موجود ہے ، کہ یہ سب کچھ خود حضرت علیصکی زرہ فروخت کر کے اسی سے مہیا کیا گیا تھا، ( دیکھئے : شرح مواہب : ۲ ؍ ۴-۳) مشہور ہے کہ اردو زبان میں سیرت کی پہلی کتاب مفتی عنایت احمد کا کوری کی ’’ تواریخ حبیب اللہ ‘‘ ہے، انھوں نے بھی یہی لکھاہے کہ حضرت علیصکے زرہ کی قیمت میں سے کچھ آپ انے حضرت بلال صکو دیا کہ خوشبو خرید کر لائیں اور باقی حضرت اُم سلمہ ؓ کہ حضرت فاطمہؓ کے لئے گھر کی ضروریات خرید کی جائیں ، ( تواریخ حبیب اللہ : ۴۴) فقہاء کے یہاں قریب قریب صراحت ملتی ہے کہ نکاح کے موقع پر عورت سے کوئی مال حاصل کرنا ’’رشوت ‘‘ کے حکم میں ہے اور رشوت کا گناہ اور حکم ظاہر ہے کہ اس کا لینا بھی حرام ہے اورضرورت شدیدہ کے بغیر اس کا دینا بھی او رلے لیا ہو تو واپس کرنا واجب ہے ، رسول اللہ ا نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے ، تو کس قدر محرومی کی بات ہے کہ ایک سنت نبوی کو انجام دیتے ہوئے انسان اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی لعنت کا طوق بھی اپنے گلے میں ڈال لے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جہیز اور گھوڑے جوڑے کا مسئلہ نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی نقطۂ نظر سے بھی نہایت سنگین مسئلہ ہے، اور سنگین تر بنتا جارہا ہے ، کم سے کم مسلمانوں کو دین عدل اورشریعت عادلہ کے حامل ہونے کی حیثیت سے اس کے مقابلہ کے لئے آگے بڑھنا چاہئے، اور سماج کو اس سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہئے، نہ یہ کہ وہ خودظلم و جور کے اس سمندر میں کود پڑیں اور دوسری قوموں کی اس ظالمانہ رسم کو اپنے سماج میں لے آئیں، جیسے ایک زمانہ میں بعض بزرگوں نے نکاح بیوگان کی تحریک چلائی تھی؛ کیوںکہ مسلمان دوسرے سماج سے متاثر ہوکر بیوہ عورتوں کے نکاح سے گریز کرنے لگے تھے، اسی طرح آج بھی ایک ایسی مہم کی ضرورت ہے ، جو رسم جہیز کو مٹانے کے لئے برپا کی جائے اور نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ انسانی بنیادوں پر تمام اقوام میں اس پیغام کو لے کر پہنچا جائے۔ اس سلسلہ میں دوطبقہ کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ ہیں، ایک تو علماء اور مشائخ کی ، کہ وہ ایسی تقریبات میں شرکت سے گریز کریں ، جن میں لین دین کی بنیاد پر نکاح کیا گیا ہو اور غالباً ان کا یہ فعل منشا شریعت کے بھی مطابق ہوگا ، دوسرے قوم کا متمول اور صاحب ثروت طبقہ جو اسراف اور فضول خرچی پر قادر ہے، اس کے باوجود وہ شادی بیاہ کی تقریب کو سادگی سے انجام دے تو فضول خرچی کی یہ دوڑ کم ہوگی اور متوسط اور غریب گھرانوں کے لئے اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا ، سال ڈیرھ سال پہلے شہر کے ایک بڑے مسلم صنعت کار نے سادہ طریقہ پر اپنی لڑکی کی شادی کی رسم انجام دی ، اخبارات نے بھی اس پر بڑی مسرت کا اظہار کیا اور مختلف حلقوں پر اس کا اچھا اثر پڑا — کاش! ہم سماج کی اس مجبوری کو محسوس کریں اور حقائق کی کڑواہٹوں کو نہ صرف گوارا کریں ؛ بلکہ ان کو سامنے رکھ کر اپنے حالات میں کچھ انقلابی تبدیلیاں لائیں ۔

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ