جیل اور بیل

   

جسٹن ایم بھروچہ ،سونم گپتا

شاہ رخ خاں کے فرزند آرین خان نارکوٹکس کنٹرول بیورو کی میزبانی سے متاثر یا پریشان ہونے کے بعد آرتھر روڈ جیل میں 27 دن تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی اور بالآخر آزاد ہوگئے۔ ان کی گرفتاری اور پھر اس کے بعد پیش آئے سلسلہ وار واقعات نے ملک کے فوجداری نظام قانون کے مسائل کا دوبارہ جائزہ لینے کی راہ ہموار کی ہے اور ہر کسی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر ہندوستان کے فوجداری نظام انصاف کے اختیارات اور اس کے حدود کیا ہیں۔ اس مقدمہ نے ہندوستان میں قانون کی حکمرانی کی تباہ ہوتی حالت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی فوجداری نظام انصاف کی خامیوں کو اجاگر بھی کیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم شاہ رخ خاں کے بیٹے آرین خاں کی گرفتاری کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ آرین خاں کو مبینہ طور پر منشیات قبضہ میں رکھنے اور استعمال کرنے کی نیت سے منشیات اور سائیکو ٹراپک مادہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اگرچہ اس کے قبضہ سے منشیات اور نہ ہی سائیکو ٹراپک مادہ برآمد ہوا ہاں یہ اور بات ہے کہ منشیات آرین خاں سے جڑے ایک شخص کے قبضہ سے برآمد کی گئی جو مبینہ طور پر آرین کے ساتھ ایک سازش کے تحت منشیات لے جارہا تھا۔ سرکاری وکیل کی حیثیت سے ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل آف انڈیا نے نارکوٹکس کنٹرول بیورو کی نمائندگی کی جبکہ آرین خاں کی جانب سے ملک کے سینئر ترین وکلاء حاضر ہوئے۔ اس کے باوجود کئی مرتبہ 23 سالہ آرین کی درخواست ضمانت مسترد کردی گئی، حالانکہ آرین کے خلاف ماضی میں کسی قسم کا سیول یا فوجداری مقدمہ نہیں تھا۔ استغاثہ نے جو کچھ بھی ثبوت و شواہد پیش کئے، وہ یہ ثابت کرنے کیلئے بالکل ناکافی تھے کہ آرین خاں خاطی ہے۔ بہرحال اس کیس میں نوجوان آرین خاں کو 27 دنوں تک جیل میں بند رکھا گیا اور پھر ضمانت منظور کی گئی جبکہ اس طرح کے سلوک کے نتیجہ میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں، جو ضمانت حاصل کرنے یا بری ہونے سے قبل برسوں جیلوں میں رہے (اکثر مقدمات میں یہی دیکھا گیا کہ استغاثہ اور نفاذ قانون کی متعلقہ ایجنسیوں کی جانب سے الزامات عائد کئے جانے اور شواہد پیش کئے جانے کے بعد برسوں لوگ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور پھر عدالتوں نے ہی ان لوگوں کو الزامات ِ منسوبہ سے بری کردیا لیکن کسی نے یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ جو لوگ عدالتوں کی جانب سے بری کردیئے گئے، ہمارے اسی نظام قانون یا نظام انصاف کے نتیجہ میں زندگی کے قیمتی سال گنوا بیٹھے اور ان برسوں کے دوران ان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے) کسی نے بھی ایسے لوگوں کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی ان کا درد محسوس کردیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2020ء میں سنگین جرائم جیسے قتل اور اغوا جس میں گرفتاریاں کی گئی تھیں، ان مقدمات میں بالترتیب 41.1% فیصد اور 35.6% مقدمات اپنے انجام کو پہنچے اور ان مقدمات میں ملزمین کو خاطی قرار دے کر سزائیں سنائی گئیں (یہ اعداد و شمار انڈیا : 2020ء، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو سے حاصل کردہ ہیں) جہاں تک ہماری عدالت عظمی اور ہائیکورٹس کا سوال ہے، ان عدالتوں نے اکثر رول آف بیل کا اعادہ کیا ناکہ رول آف جیل کا۔ ضمانت کے اصول کا اعادہ کیا، نہ کے جیل کے اصول کا۔ کسی بھی عدالت کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ضمانت اسی وقت منظور کرتی ہے جب اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے، اور یہ وجہ گواہوں کے بیانات اور شہادتوں کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اکثر یہی کہا گیا ہے کہ عدالتوں میں جب استغاثہ یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوتا ہے کہ ملزم گواہوں پر اثرانداز ہوگا اور شواہد سے چھیڑ چھاڑ کرے گا یا پھر قانونی عمل میں رکاوٹ کا باعث بنے گا تب عدالتیں اسے ضمانت دینے سے انکار کرتی ہیں۔ اس طرح کے مقدمات میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ملزم کو خاطی قرار دیئے جانے کی پوری توقع ہے۔ ساتھ ہی عدالتیں ضمانت دینے سے اس لئے بھی انکار کردیتی ہیں کیونکہ استغاثہ عدالت کو یہ یقین دلانے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے کہ اگر ملزم کو ضمانت دی جاتی ہے تو وہ سزا سے بچنے کیلئے راہ فرار بھی اختیار کرسکتا ہے۔ ان حالات میں عدالتیں انہیں حاصل عدالتی اختیار تمیزی کا استعمال کرتے ہوئے ملزم کے خلاف سنگین جرم کے الزامات کی بنیاد پر ضمانت دینے سے انکار کردیتی ہیں۔ درحقیقت عدالتیں ملزم پر عائد الزامات کی سنگینی پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ ان الزامات کو ثابت کرنے کیلئے شواہد کی عدم موجودگی کو نظرانداز کردیتی ہے۔