جیل یا بیل (ضمانت) قانونِ ضمانت متعارف کروانا ضروری

   

جگدیش رتنانی
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا اور خود سپریم کورٹ نے قوم کی توجہ جیلوں میں برسوں پڑے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے زیردریافت قیدیوں کی جانب مبذول کروائی۔ اس طرح جسٹس این وی رمنا نے ایک ایسے مسئلہ پر توجہ دلائی ہے جس نے ہماری جمہوریت کی شبیہ مسخ کرکے رکھ دی ہے اور ملک کے عام شہریوں کے جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے اور ایک ایسے نظام کو تقویت بخشی ہے جو بنیادی حقوق کیلئے نقصان دہ ہے۔ جیل، بیل (ضمانت) کی بجائے جیل (قید) اکثر تحقیقاتی کارروائیوں کا معمول بن گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں 6,10,000 شہری قیدیوں کی حیثیت سے اپنی زندگیاں گذار رہے ہیں۔ ان میں سے 80% زیردریافت قیدی ہیں یعنی ایسے قیدی جن کے خلاف مقدمات زیرسماعت ہیں۔ 18 جولائی کو جئے پور میں آل انڈیا لیگل سرویس اتھارٹی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس این وی رمنا کا (پی ٹی آئی کے مطابق) کہنا تھا کہ ہمارے فوجداری یا تعزیری نظام انصاف میں جو عمل یا کارروائی ہے، وہ سزا ہے۔ اندھا دھند گرفتاری سے لے کر حصول ضمانت میں مشکلات ایسا عمل اور کارروائی ہے جو زیردریافت قیدیوں کی طویل قید کا باعث بنتی ہیں اور اس سنگین مسئلہ پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جسٹس این وی رمنا نے یہاں تک کہا کہ قید خانے (جیلیں) سیاہ و تاریک ڈبے ہیں۔ قیدی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور وہ ایسے شہری ہیں جن کی آواز نہیں سنی جاتی۔
آج ہماری عدالتیں مقدمات سے بھری ہیں۔ مقدمات کی سماعت اور فیصلے صادر کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ اس دوران لوگوں کو کافی طویل عرصہ تک جیلوں میں بند رہنا پڑتا ہے۔ ضمانتیں ملتے میں بھی اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ ان حالات میں جو ملزمین دولت مند اور اثرورسوخ کے حامل ہوتے ہیں،وہ گرفتاری سے بچنے کیلئے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلیتے ہیں جس سے عدالتوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عدالتیں یہ سوچتی ہیں کہ سزا کا امکان شاذ و نادر ہونے کے قریب ہے۔ درخواست ضمانتوں پر قانونی اصول و قواعد کے برعکس سختی سے فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو ایک طویل عرصہ تک حراست میں رکھنا اور پھر بالآخر ملزمین کا بری کیا جانا اصل میں سنگین ناانصافی کا ایک معاملہ ہوگا۔
حسب معمول ظلم
موجودہ حالات کا اس وقت کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بناء مقدمہ چلائے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا جیلوں میں بند رہنا دراصل سسٹم میں پائے جانے والے نقائص کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس بات کو منظر عام پر لاتا ہے کہ ہم نے جیلوں میں پھنسے ہوئے یا ٹھونسے گئے قیدیوں کو فراموش کردیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ فوجداری نظام انصاف کے جو نقائص ہیں، انہیں دور کیا جانا ضروری ہے تاکہ مقدمات کی جلد سے جلد یکسوئی ہوسکے اور بے قصور افراد اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر ایک بڑا عرصہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے نہ گذاریں۔ ہمارے نظام میں جو بھی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ انہیں عدلیہ کی مدد کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے خود کہہ دیا ہے کہ حکومت کو ضمانت کی درخواستوں کی جلد سے جلد یکسوئی کرنے کیلئے اقدامات کرنا چاہئے اور یہ کام حکومت کے غوروفکر کے بعد مقننہ انجام دے سکتی ہے۔
پولیس کی ناکامی
درحقیقت کسی کو حراست میں لینا اتنا عام ہے کہ پولیس عہدیدار ہمیشہ مکمل تفصیلات یا مناسب تفصیلات پُر کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ بعض اوقات یہ تحقیقات و تفتیشی ایجنسیوں کے درمیان انا کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں تحقیقات اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے حکومت پر باضابطہ طور پر زور دیا ہے کہ وہ Bail Act متعارف کرنے پر غور کرے۔ جسٹس کول اور جسٹس سندریش نے بطور خاص کہا کہ ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک قانون متعارف کرانے پر غور کرے جو خاص طور پر ضمانت دینے کیلئے رہے جیسا کہ برطانیہ جیسے دیگر ملکوں میں کہا گیا ہے۔ آج اگر دیکھا جائے تو سب سے بڑا مسئلہ نوآبادیاتی دور کا نظام ہے جسے ہم اپنے ملک کی آزادی کے 75 ویں سال میں بھی خود سے الگ نہیں کرسکے، اچھا کام کرنے والوں، بدعنوان عناصر کا پردہ فاش کرنے والوں کو سزا اور اشتعال پھیلاکر امن و امان کی فضاء کو خراب کرنے کے ذمہ داروں کو انعامات سے نوازتے ہیں۔ غرض ملک میں ایک ایسے قانونی نظام کی ضرورت ہے جو نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور اس کے عہدیداروں کو جوابدہ بنائے۔ اگر چیف جسٹس کی تشویش کو دور کرتے ہوئے Bail Act بنایا جاتا ہے تو پھر امید ہے کہ بے قصور لوگ جیلوں میں طویل عرصہ تک رہنے سے بچ جائیں۔