جینور میں فرقہ پرستوں کی بربریت، پولیس تماشائی

, ,

   

اقلیتوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ، 20 تا 25 کروڑ مالیت کے نقصان کا اندازہ، جامع مسجد کی بھی بے حرمتی
انٹرنیٹ خدمات بند، دفعہ 144 نافذ، حالات قابو میں

عادل آباد ؍ کیرامیری ۔ 4 ستمبر (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) متحدہ ضلع عادل آباد کا جینور جہاں آدیواسی خاتون کی عصمت ریزی اور قتل کرنے کی کوشش کا مخدوم نامی ایک آٹو ڈرائیور پر الزام عائد کرتے ہوئے آدیواسی طبقہ کے شرپسند عناصر نے دن دہاڑے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جبکہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ جینور کی جامع مسجد میں گھس کر شرپسندوں نے مسجد کے میں موجود اشیاء کو نقصان پہنچایا اور مسجد کی بے حرمتی کی ۔ شرپسندوں نے مسلمانوں کے دکانوں میں توڑ پھوڑ کی اور اشیاء کو نذر آتش کیا۔ دیگر اشیاء کو سڑک پر بکھیر دیا دیا۔ جینور کے مختلف مقامات پر موٹر سائیکلوں، کاروں اور ٹھیلہ بنڈیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ موصولہ اطلاع کے مطابق آدیواسی خاتون مخدوم کے آٹو سے اپنا توازن کھو کر نیچے گر پڑی جس کے بنا پر اس کی ناک زخمی ہوگئی۔ علاج کے دوران خاتون نے ازخود کہا تھا کہ وہ گرپڑی جس کے بنا پر یہ واقعہ پیش آیا۔ بعد ازاں اسے علاج کیلئے آصف آباد دواخانہ منتقل کیا گیا جہاں پر متاثرہ خاتون نے اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے آٹو ڈرائیور پر اقدام قتل کا الزام عائد کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ آٹو ڈرائیور مخدوم نے تقریباً 22 سال قبل ایک آدیواسی خاتون سے شادی کی تھی جس کے انتقام کے طور پر یہ اقدام کیا گیا۔ جینور مستقر عادل آباد سے تقریباً 50 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ نمائندہ سیاست کیرامیری ضلع آصف آباد کے بموجب پولیس نے مخدوم کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ قبائلیوں نے آج جینور بند کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت آج مستقر جینور کے تمام تجارتی ادارے مکمل طریقہ سے بند تھے اور پولیس کی جانب سے حفاظتی انتظامات بھی کیے گیے تھے لیکن اچانک ہجوم کی جانب سے اقلیتی طبقہ کے مکانات اور ایک عبادت گاہ پر بھی حملہ کیا گیا۔ اس پورے واقعہ کے وقت پولیس کی کثیر تعداد ،جینور میں ہی موجود تھی اور املاک کو نقصان پہونچانے کا سلسلہ تقریبا 3گھنٹوں تک جاری رہا۔ جینور کے عوام کی جانب سے یہ بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ شرپسندوں کو پولیس کی جانب سے مکمل چھوٹ دیدی گئی تھی کیونکہ یہاں پر 3 ستمبر کی شام سے ڈی سی پی آصف آباد پی سادیا کی نگرانی میں جینور کے سرکل انسپکٹر ای رمیش اور سب انسپکٹر ساگر اور دیگر نے پولیس کا وسیع بندوبست کیاتھا ۔ تقریباً تین گھنٹوں تک فساد جاری رہنے کے باوجود نہ تو پولیس کی جانب سے انہیں منتشر کرنے کی کوئی کوشش کی گئی اور نہ ہی کوئی ایکٹ نافذ کیاگیا۔ پولیس نے بتایا کہ حالات قابو میں ہیں، ڈی جی پی کے مطابق احتیاطی اقدام کے طور پر انٹرنیٹ خدمات بند کردی گئی ہیں اور دفعہ 144 نافذ کیا گیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں پولیس کا بھاری بندوبست کیا گیا ہے۔ ڈی جی پی نے دونوں طبقات سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمین کو پکڑلیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو انتباہ بھی دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جینور کے اقلیتی طبقہ کا تقریباً 20 تا 25 کروڑ کا نقصان ہوا اور اقلیتی طبقہ کی ایک بھی چھوٹی یا بڑی کرانہ دوکان، چاِئے کی ہوٹل، میکانک کا شیڈ یا اور کوئی بھی دوکان کا وجود باقی نہیں رہا ۔