پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس
ہندوستان کی معیشت کا جائزہ لینا اس پر نظر رکھنا کہ مرکزی حکومت ملک کی اقتصادی حالت کو لے کر جو دعوے کرتی ہے ان دعوؤں میں کچھ جان بھی ہے یا نہیں راقم الحروف کا محبوب مشغلہ ہے مجھے ہر ماہ جن مضامین کا بڑی بے چینی سے انتظار رہتا ہے وہ ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے ملک کے معاشی موقف پر ہر ماہ شائع ہونے والا بلیٹن ہے۔ اس بلیٹن میں ملک کی اقتصادی حالت کے بارے میں جو مضامین شائع کئے جاتے ہیں ان میں اعداد و شمار بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ گورنر ریزرو بینک آف انڈیا کی منظوری کے بغیر ایک لفظ بھی شائع نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنروں میں سے ایک ڈپٹی گورنر کا علمی مقالہ یا خطاب کو بھی گورنر آر بی آئی کی منظوری ضروری ہے۔
آر بی آئی بلیٹن کے ابتداء میں شائع ہونے والے نوٹ کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا چنانچہ مضمون بڑے پیمانہ پر مطالعہ میں آتا اور اکثر و بیشتر مختلف کالم نگار اور سیاسی قائدین اپنے مضامین اور تقاریر و بیانات میں اس کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ آپ کو بتادوں کہ ایک ایسا لفظ ہے جو مضمون میں بار بار آتا ہے اور وہ لفظ ’’غیر یقینی‘‘ ہے۔ حکومت اور آر بی آئی کی جانب سے مختلف اقدامات کئے جانے کے باوجود ملک میں افراط زر یا مہنگائی، اشیاء، بے ضروریہ اور دوسرے چیزوں کی قیمتوں، بیروزگاری، تنخواہوں، اجرتوں ، سرمایہ کاری، آمدنیوں، محاصل اور بیرونی تجارت سے متعلق غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ غیر یقینی کی کیفیت نے غیر اقتصادی شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسے سرکاری انتخابات، فہرست رائے دہندگان اور انتخابات، قوانین اور ان پر عمل آوری یا اطلاق، خارجہ پالیسی، پڑوسی ملکوں کے تئیں پالیسی وغیرہ وغیرہ ان سب کو بھی غیر یقینی نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ مختصراً یہ کہ غیر یقینی کی صورتحال ملک کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق قومی معیشت کو سہارا دینے کا تازہ حربہ جی ایس ٹی شرح میں کٹوتی یا تخفیف ہے اور جی ایس ٹی میں تخفیف کو وہ معاشی اصلاحات کا ایک حصہ قرار دیتا ہے لیکن سوال یہ ہیکہ حقیقت میں اصلاحات کیا ہیں؟ اگر غور کیا جائے تو ہم بلا جھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ جی ایس ٹی کی ڈیزائننگ غلط تھی۔ اس کی ساخت یا ڈھانچہ بھی غلط تھا۔ اس کا اطلاق غلط تھا جبکہ جی ایس ٹی کے نفاذ میں بھی بے شمار خامیاں تھیں۔ ایسے میں حکومت کا یہ کہنا کہ جی ایس ٹی میں ترمیم عوام کی سہولت کے لئے کی گئی وہ درست نہیں ہے بلکہ ہم ترمیم کو کوئی انقلابی تبدیلی یا اصلاحات نہیں کہہ سکتے۔
معیشت کی جو موجودہ حالت ہے اس کے بارے میں حکومت سے لے کر آر بی آئی کا اور حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی شرحوں میں تخفیف ایک خوش آئند اقدام ہے اور اس سے کاروباری لوگ خوش ہیں۔ جی ایس ٹی شرحوں میں کٹوتی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس سے صارفین (عوام) کو تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے کا فائدہ ہوگا لیکن اب اسے قومی مجموعی پیداوار GDP کے تناسب میں دیکھا جائے تو یہ صرف 0.56 فیصد ہے۔ ریئل مارکٹ میں یہ صرف 2.4 فیصد کا اضافہ ہے۔ راقم اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ جی ایس ٹی شرحوں میں تخفیف Consumption Expenditure کو تقویت دے گا لیکن اشیاء کے استعمال، پیداوار اور سرمایہ کاری کے Cycle کو قابل لحاظ حد تک متاثر کرے گا۔ یہ اور بات ہیکہ سرکاری ماہرین اقتصادیات نے اس سوال پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا ہم جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ گھرانوں کا قرض جی ڈی پی کا 40 فیصد تک بڑھ گیا ہے اور گھرانوں (خاندانوں) کی بچت میں 18.1 فیصد (وہ بھی قومی مجموعی پیداوار کا) گراوٹ گراوٹ آئی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مرکزی وزارت فینانس اور ریزرو بینک آف انڈیا ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ 19 جنوری 2025 کو مرکزی وزارت فینانس کی مشاورتی کمیٹی کو پیش کئے گئے دستاویزات ؍ مقالہ جات میں پہلے تین سلائڈز کے عنوانات کچھ اس طرح تھے: ۔
٭ عالمی معیشت بلند سطح کی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے
٭ عالمی تجارت اور سرمایہ کاری ایک طرح سے رک سی گئی ہے
٭ عالمی معیشت اور عالمی تجارت و سرمایہ کاری کے شعبوں میں غیر یقینی صورتحال کے درمیان ہندوستانی معیشت کی کارکردگی بہتر رہی۔
لیکن اصل حقیقت یہ ہیکہ چیف اکنامک اڈوائزر سخت معاشی اصلاحات کے لئے تیار نہیں ہیں حالانکہ موجودہ حالات میں خاص طور پر عالمی سطح پر جو حالات ہیں ہمیں سخت معاشی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
حالانکہ وزیر اعظم بار بار کاروبار اور طرز زندگی کو بہتر اور آسان بنانے کے دعوے کررہے ہیں اگر ہندوستانی معیشت کو آگے بڑھانا ہے اسے مستحکم کرنا ہے تو پھر ہندوستانی معیشت کو کھلی اور مسابقتی معیشت بنانا ضروری ہے۔ ہمیں گڈس اینڈ سرویس (مصنوعات اور خدمات) پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم ان اصلاحات کی جنوبی ایشیاء اور آسیان، سارک ممالک کے ساتھ شروعات کرسکتے ہیں۔ SAARC فی الوقت دنیا کا مربوط اقتصادی و تجارتی بلاکس میں سے ایک ہے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہوگا کہ سارک ممالک میں ہی بیرونی تجارت ان کی جملہ عالمی تجارت کی 5.7 فیصد ہے جبکہ SAARC ملکوں کے ساتھ ہندوستان کی بیرونی تجارت 8 فیصد سے بھی کم ہے اس کے برعکس ASEAN ممالک سے ہندوستان کی بیرونی تجارت 11 فیصد ہے۔