جی ایس ٹی کی شرحوں میں کمی8 برسوں میں جمع رقم کہاں گئی؟

   

روش کمار
مرکزی حکومت نے 8 برسوں تک جی ایس ٹی کے ذریعہ چھوٹے متوسط اور بڑے دکانداروں و تاجرین کے ساتھ ساتھ عوام سے جی ایس ٹی کے نام پر کافی رقم بٹورلی اور 8 سال گزرنے کے بعد اسے خیال آیا کہ جی ایس ٹی میں کمی کی جائے ۔ اپوزیشن اب یہ پوچھنے لگی ہے کہ 8 برسوں سے جی ایس ٹی کے نام پر حاصل کی گئی کثیر رقم کہاں گئی ؟ ہم آپ کو ماضی کی طرف لئے چلتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جی ایس ٹی سے عام ہندوستانی سے لے کر ایک دکاندار کو کس قدر مالی بوجھ اور دہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال 10 ڈسمبر 2024 کو راہول گاندھی دہلی کے ایک علاقہ میں جاتے ہیں ایک کرانہ دکان جاتے ہیں۔ یہ جاننے کیلئے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کا دکانداروں پر کیا اثر پڑا ہے ۔ اس کے دس ماہ بعد 22 ستمبر 2025 کو مرکزی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن دہلی کے لکشمی نگر کے دکانات پر جاتی ہیں ، یہ دیکھنے کیلئے کہ جی ایس ٹی کی نئی شرحوں کا فائدہ عام لوگوںکو بچ رہا ہے یا نہیں ۔ راہول گاندھی کے بارے میں بتادیں کہ وہ جس دن پہنچے تھے ، دکان کے کاؤنٹر پر بیٹھ کر دیکھتے ہیں کہ چیزیں کیسے فروخت کی جاتی ہیں ۔ دکانداروں سے سمجھتے ہیں کہ جی ایس ٹی کے باعث ان کی کیا حالت ہوئی ہے ۔ دکاندار بتاتا ہے کہ VAT کی بہ نسبت جی ایس ٹی کی شکل میں چار گنا ٹیکس دینا پڑ رہا ہے اور آدھا وقت جی ایس ٹی کا بل بھرنے میں چلا جاتا ہے ۔ چھوٹے تاجرین کیلئے جی ایس ٹی نے قیمتیں بڑھادی ہیں، ہم نہیں کہنا چاہتے کہ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے راہول گاندھی کی نقل کی ہے لیکن اگر وہ بھی اسی طرح دکانات پر جاتی رہتی دکانداروں کی باتیں سنتی تو راحت کیلئے 8 برسوں تک انتظار کرنا نہیں پڑتا ، تب ہی پتہ چل جاتا کہ بچے جی ایس ٹی کی وجہ سے پنسل اور ربر نہیں خرید پارہے ہیں اور بڑے صابن تیل جیسی ضروری چیزیں خریدنے سے قاصر ہیں ۔ راہول کے اس ویڈیو کے دس ماہ بعد وزیر فینانس نرملا سیتا رامن دو دو مملکتی وزراء کے ساتھ لکشمی نگر کی دکانات گئیں ہیں۔ اسٹیشنری کی دکانات میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ پیر سے اس لئے دکانات بند ہیں لیکن نوراتری کی وجہ سے کچھ دکانات کھولی گئی ہیں ۔ اس شرح کے کم ہونے سے 10 فیصد قائفہ صارفین کو ملے گا ، ویسے بھی وزیر فینانس کو صارفین اور دکانداروں کے گھر بھی جانا چاہئے تاکہ پتہ چلے کہ انہیں کتنا فائدہ ہوا ہے ۔ دکانداروں کا جی ایس ٹی کے بارے میں کہنا تھا کہ (راہول گاندھی کو دکانداروں نے بتایا) VAT کی بہ نسبت جی ایس ٹی ان کیلئے نقصاندہ ثابت ہوا اور چار گناہ ٹیکس زیادہ دینا پڑ رہا ہے ۔ آدھا وقت تو ریٹرنس بھرنے میں ضائع ہوجاتا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ 22 ستمبر 2025 سے شروع ہوچکا ہے ۔ بچت اتسو ، دام کم ہونے سے پہلے ہی حکومت چاہتی ہے کہ آپ بچت اتسو منائیں لیکن ہم چاہتے ہیںکہ آپ اسمرتی اتسو بھی منائیں۔ اسمرتی اتسو میں رقص کرنا نہیں پڑتا بس پرانے وعدوں کو یاد کرنا ہوتا ہے ۔ جب 30 جون 2017 کو آدھی رات میں جی ایس ٹی منظور ہوا اور یکم جولائی کی صبح سے نافذ ہوا تب کیا کیاکہا گیا تھا اور جب 22 ستمبر سے جی ایس ٹی کی نئی شرحیں نا فذ ہوئی تب کیا کیا کہا جارہا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 22 ستمبر کے اخبارات کا پہلا صفحہ ٹوئیٹ کیا ہے ، آپ ہندوستان بھر کے اخبارات کا حال دیکھ سکتے ہیں ۔ ہمارا سوال ہے کہ کہیں یہ اتسو اخبارات تک محدود نہ رہ جائے ۔ چیزوں کی قیمتیں کم ہونے یا نہیں ہونے کو لے کر ان اخباروں میں ٹھیک سے رپورٹنگ ہونی چاہئے ۔ یہی نہیں وزیراعظم نریندر مودی اروناچل پردیش کے ایٹا نگر میں بچت اتسو میں شامل ہوتے ہیں ۔ بیوپاریوں اور تاجرین ، صنعتکاروں سے بات کرتے ہیں ، انہیں فخر سے کہو دیسی ہے کا پوسٹر حوالے کرتے ہیں۔ جی ایس ٹی کی نئی شرحوں کو لے کر کہا جارہا ہے کہ بیمہ کا پریمیم کم ہوجائے گا ۔ ایک بڑی انشورنس نے اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے ہیں کہ پریمیم سستا ہوگا ۔ کیا سستا ہوگا ، پریمیم اور بیمہ (انشورنس) کا معاملہ تفصیل کا ہوتا ہے آپ کو بہت سوچ سمجھ کر اور احتیاط سے فیصلہ کرنا پڑتا ہے ۔ بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اسپتال میں آپ کو کبھی بھی لمبا چورا بل تھمایا جاسکتا ہے ۔ اسی گھبراہٹ میں کئی بار لوگ صحیح علاج کیلئے اسپتال نہیں جاتے اور جاتے ہیں تو قرض میں پھنس جاتے ہیں اس لئے صحت کو لے کر منصوبہ بندی کرنے میں سب سے کارگر اگر کوئی حل ہے تو وہ ہے ہیلت انشورنس ، اس میں صرف 500 یا 600 روپئے ہر ماہ پریمیم دے کر آپ کو عمر کے حساب سے لاکھوں کروڑوں کا کوریج مل سکتا ہے ۔ آدھے گھنٹے میں Claim Support اور ریلیشن شپ مینجر کا ا نتظام ہوتا ہے ، اس کے علاوہ ٹرم انشورنس جو آپ کے نہ رہنے پر خاندان کو معاشی سہولت فراہم کرسکتا ہے ۔ حکومت نے اب تک یہ نہیں کہا کہ 8 سال کے بعد جی ایس ٹی کی شرحیں کیوں کم کی گئیں ہیں، اس نے یہ بھی قبول کرنے سے انکار کردیا کہ جی ایس ٹی کے نتیجہ میں ہندوستانی شہریوں کو لاکھوں کروڑ روپیوں کا نقصان ہوگیا۔
رائے دہندوں میں رقم کی تقسیم : اب چلتے ہیں بہار، بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ، کیا اس لئے بہار میں رقم تقسیم کی جا رہی ہے تاکہ ووٹ خریدے جاسکیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہار میں ووٹ چوری کے مسئلہ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے رائے دہندوں کے کھاتوں یا اکاو نٹس میں رقم جمع کروائی جارہی ہے جسے پتہ نہیں جس نے مانگا بھی نہیں ہے اس کے اکاؤنٹ میں بھی بہار حکومت کا کچھ نہ کچھ پیسہ آرہا ہے ۔ کسی کو ایک ہزار کسی کو 11 سو اور کسی کو دس ہزار تو کسی کو 15 ہزار روپئے دیئے جارہے ہیں ۔ کسی کو پنشن ، کسی کو عطیہ ، کسی کو ٹیابلیٹ ، کسی کو ا سمار ٹ فون دیا جارہا ہے ۔ جولائی سے لے کر ستمبر کے درمیان بہار حکومت نے پیسے تقسیم کرنے کے لئے ایسی ایسی اسکیمات شروع کی ہیں کہ آپ حیران رہ جائیں گے اور پیسہ دینے کیلئے نئے نئے گروہوں کا پتہ لگایا جا رہا ہے اور لگایا جاچکا ہے ۔ کہیں وکیل کے نام پر تو کہیں بارہویں پاس کے نام پر پیسہ دیا جارہا ہے ۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت اگر آپ پٹنہ میں رکشہ سے چیف منسٹر کے دفتر کے سامنے سے گزر رہے ہیں تو آپ کیلئے بھی ایک اسکیم بن جائے گی ۔ مکمیہ منتری، رکشہ ، اتساہن یوجنا کوئی تھکانہ نہیں آپ رکشہ میں گھومیں اور پیسہ حکومت دینے لگ جائے ۔ 7 ستمبر کو بہار کی حکومت نے 16 لاکھ مزدوروں کے اکاؤنٹس میں 800 کروڑ روپیہ ڈال دیئے گیا۔ ہر مزدور کو 5 ہزار روپئے دیئے گئے تاکہ وہ وردی خرید سکے، اب بہار میں کون سے مزدور کہاں وردی پہن کر جاتے ہیں ، پتہ نہیں لیکن کپڑے خریدنے کے نام پر 16 لاکھ مزدوروں کو پانچ ہزار روپئے بانٹ دیئے گئے ۔ نئے وکیلو کو پانچ ہزار روپئے ہر ماہ اسٹائفنڈ دیا جائے گا ۔ یکم جنوری 2024 سے نئے وکیلو کو تین سال تک ہر ماہ 5 ہزار روپئے ملے گا۔
اب بات کرتے ہیں فلسطین کی ، ایک علحدہ ملک ہے لیکن اسرائیل اور اٹلی جیسے ملکوں کا کہنا ہے کہ فلسطین کوئی ملک ہی نہیں۔ دنیا طاقت کی بنیاد پر ہٹ گئی ہے اور چیزیں طئے ہو رہی ہیں ۔ اچانک سے ایسا کیا ہوگیا کہ جن ملکوں میں فلسطین کیلئے اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرنے پر روک لگائی گئی ۔ احتجاج کرنے والوں پر پولیس نے سختی کی۔ ان ملکوں نے فلسطین کو آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا کام شروع کردیا فرانس ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، بلجیم ، لگسمبرگ ، میکسیکو، اسپین ، مالٹا اور مونا کو جیسے ملکوں نے فلسطین کو ایک آز اد اور علحدہ ملک کے طورپر تسلیم کیا ۔ ان ملکوں کے وزرائے اعظم اور صدور نے اس تعلق سے اعلانات کی نقول ٹوئیٹ کی ہے ۔ اپنا بیان سوشیل میڈیا پر پوسٹ کیا ہے ۔ لگ رہا ہے کہ کوئی پرمٹ دکھا رہے ہیں لیکن دنیا جاننا چاہتی ہے کہ اس کے بعد یہ ممالک کیا کریںگے۔ کیا فلسطین کی حفاظت کیلئے کچھ کر بھی پائیں گے ، کیا اس کیلئے اپنی افواج بھیج دیں گے ۔ ہتھیاروں کی سپلائی کریں گے ؟ کیا کریں گے ؟ اتنا تو دکھائی دے رہا ہے کہ اسرائیل الگ تھلگ پڑ رہا ہے ۔ اس کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اسرائیل پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔