جی ایس ٹی کے تین سال ریاستوں کی پریشانی میں اضافہ

   

آنندیو چکرورتی
جی ایس ٹی نافذ کئے تین سال کا عرصہ ہوچکا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ صحیح یا غلط ثابت ہوا ہے۔ جی ایس ٹی کے کئی معنی نکالے گئے کسی نے اسے گبر سنگھ ٹیکس کہا تو کسی نے غلط سلط ٹیکس قرار دیا۔ آیا تین سال بعد جی ایس ٹی غلط سلط ٹیکس ثابت ہوا ہے؟
تین سال اور ایک عالمی وباء نے ہمیں یہ بتانے کے لئے کافی ڈیٹا فراہم کیا ہے کہ جی ایس ٹی اس کی موجودہ شکل میں بالکل ناکام ہے۔ یاد کیجئے پنڈتوں نے جی ایس ٹی کے بارے میں ہمیں کیا بتایا تھا۔ ان لوگوں نے بتایا تھا کہ اس سے ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو میں کم از کم دو فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوگا۔ لیکن اب آپ پیچھے مڑ کر دیکھ سکتے ہیں اور ہنس یا رو سکتے ہیں۔ جو بھی آپ کے موڈ پر موزوں ہو آپ کرسکتے ہیں کیونکہ جی ایس ٹی کے بعد قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو کی بری حالت ہوگئی ہے۔ ہم ہندوستانی جی ایس ٹی کے بغیر ہی اچھے تھے۔

تین سال قبل مودی حکومت نے جی ایس ٹی کی مخالفت کرنے والوں کو نظرانداز کردیا، ان کی تنقیدوں کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ جی ایس ٹی کا نفاذ عمل میں لایا۔ این ڈی اے کی زیر اقتدار زیادہ تر ریاستوں نے بنا کسی اعتراض کے جی ایس ٹی کونسل کی ہدایات و رہنمایانہ خطوط کو تسلیم کرلیا اور اس کی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں لیکن اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں کو بھی جی ایس ٹی کو تسلیم کرنا پڑا۔ ان تمام ریاستوں کو اس بات کی طمانیت دی گئی تھی کہ سالانہ آمدنی میں 14 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ ان ریاستوں نے 2015-16 میں جو کچھ آمدنی حاصل کی اس آمدنی میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اگر اس آمدنی میں اضافہ نہیں ہوگا تو پہلے 5 سال مرکزی حکومت ان ریاستوں کو ہونے والے نقصان کی پابجائی کرے گی اور 2022 تک پہلے پانچ سال مکمل ہوں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت ریاستوں کے نقصانات کی پابجائی کے لئے رقم کہاں سے لائے گی آیا وہ لکژری گڈس اور دیگر اشیاء جیسے ایس یو ویز، سگریٹس، پان مسالہ، سافٹ ڈرنکس اور کوئلے کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس نافذ کرتے ہوئے یہ رقم جمع کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے اس مقصد کے لئے ایک کارپس قائم کیا اور اسی سے ریاستوں کو رقم کی منتقلی کی جانے والی ہے۔
مرکز ریاستوں کو کافی رقم باقی ہے
اگر دیکھا جائے تو پچھلے چند برسوں سے ہندوستانی معیشت بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والی ایک ریاست بھی 14 فیصد آمدنی میں اضافے کے نشانہ کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سال 2019-20 میں مدھیہ پردیش اور کرناٹک جیسی ریاستیں ہی جی ایس ٹی کلکشن 10 فیصد سے زائد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ یاد رہے کہ یہ فی الوقت بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستیں ہیں۔

جہاں تک ہماری ریاست تلنگانہ کا سوال ہے جی ایس ٹی کلکشن میں 9.4 فیصد تک اضافہ ہوا۔ مہاراشٹرا میں 9.2 فیصد تک کا اضافہ ردج کیا گیا۔ مغربی بنگال جیسی ریاست میں جی ایس ٹی کلکشن 9.1 فیصد تک رہا اور زیادہ تر ریاستوں میں جی ایس ٹی کلکشن 6.8 فیصد تک بڑھا۔ یقینا لاک ڈاون نے تقریباً 2 ماہ کے دوران جی ایس ٹی کلکشنس میں مکمل طور پر خلل اندازی پیدا کی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مرکزی حکومت کے سی جی ایس ٹی کلکشن میں ماہ اپریل میں 87 فیصد کی کمی آئی۔ اس طرح اس مدت میں مرکزی حکومت نے صرف 5934 کروڑ روپے کا جی ایس ٹی وصول کیا۔ جہاں تک ریاستوں کا سوال ہے یہ کچھ اور زیادہ جی ایس ٹی جمع کرسکتی تھیں۔ ان ریاستوں نے جو کچھ جی ایس ٹی جمع کیا اس سے کہیں زیادہ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے مصارف ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی وزرائے فینانس مرکز پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جتنا جلد ہوسکے انہیں واجب الادا جی ایس ٹی کی رقم جاری کرے۔
ریاستوں کے لئے ایک بری خبر یہ ہے کہ مرکزی حکومت ان کی آمدنی کی پابجائی میں مسلسل تاخیر کررہی ہے یہاں تک کہ مودی حکومت نے خود اس بات کا عہد کیا ہے کہ ہر دو ماہ میں یہ معاوضہ یا واجب الادا رقم ادا کی جائے گی۔ مثال کے طور پر دسمبر ، جنوری کا معاوضہ فروری میں جاری کیا جانا چاہئے تھا لیکن اسے اپریل میں ادا کیا گیا اور جو رقم فروری، مارچ میں ادا کی جانی تھی اس رقم کی جون میں ادائیگی عمل میں آئی۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ لاک ڈاون کی مدت یعنی اپریل اور مئی کی رقم ریاستوں کو کب جاری کی جائے گی۔
الکحل ریاستوں کے بچاو میں

مایوس ریاستی حکومتیں آمدنی کے مسائل میں کمی کے نتیجہ میں اب یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ کس طرح آمدنی میں اضافہ کیا جائے یا آمدنی کو بڑھایا جائے۔ اس معاملہ میں ان ریاستوں کے سامنے صرف دو ہی امکانات تھے ایک الکحل اور دوسرا فیول۔ یہ وجہ ہے کہ لاک ڈاون کے بعد سب سے پہلے شراب کے دکانات کی کشادگی عمل میں آئی یعنی کھولی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی ریاستوں نے شراب پر محاصل میں غیر معمولی اضافہ کردیا۔ دوسری طرف اکثر ریاستی حکومتوں نے پٹرول اور ڈیزل پر اضافی قدر ٹیکس میں اضافہ کیا تاکہ دیگر مصنوعات اور خدمات پر جی ایس ٹی کے جو نقصانات ہو رہے تھے اس کی پابجائی کی جاسکے۔
حکومت کے ان دونوں اقدامات سے صحت اور اقتصادی شعبہ پر اثرات مرتب ہوئے۔ مثال کے طور پر عالمی ادارہ صحت نے حکومتوں سے کہا کہ وہ کووڈ ۔ 19 وباء کے دوران شراب نوشی کی حوصلہ شکنی کرے کیونکہ شراب سے انسان کی قوت مدافعت میں کمی آتی ہے اور کموڈیٹی یعنی دوسرے بیماریوں کے ساتھ لگنے والی بیماری کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کی ان ہدایات کے باوجود ہندوستانی ریاستی حکومتوں کے پاس الکحل کی فروخت کو آگے بڑھانے کے سواء کوئی امکان باقی نہیں تھا۔ عالمی مالیاتی ادارہ نے اس بات کی سفارش کی کہ حکومتیں صارفین اور کاروباری اداروں کو ٹیکس بریکس دیں۔ اس میں اہم ان ۔پٹس اور اشیائے ضروریہ پر محاصل میں کٹوتی بھی شامل ہے، لیکن ریاستی حکومتیں مرکز کے ساتھ مل کر اس کے متضاد اقدامات کررہی ہے۔ فیول پر محاصل میں اضافہ کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا ہے کیونکہ جی ایس ٹی نے مرکزی و ریاستی حکومتوں کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔

جی ایس ٹی کے بارے میں اکثر ریاستوں کی یہی رائے ہے کہ یہ دراصل قانون کی مخالف وفاقی نوعیت ہے لیکن 14 فیصد ریونیو کے نمو کی جو طمانیت دی گئی ہے اس پر وہ انحصار کئے ہوئے ہے۔ اب جبکہ مرکزی حکومت معاوضے کی ادائیگیوں میں تاخیر کررہی ہے تمام ریاستیں ایک ہی کام کرسکتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ مودی حکومت کو مکتوبات روانہ کریں۔ جہاں تک غیر منظم شعبہ کا سوال ہے جی ایس ٹی اس شعبہ کے لئے ایک بہت بڑی تباہی لانے کا باعث بنا ہے۔ خاص طور پر اس غیر منظم شعبہ میں لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہوئے اور جی ایس ٹی سے غیر منظم شعبہ کو نوٹ بندی سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا، حالانکہ نوٹ بندی کو ماہرین اقتصادیات نے اقتصادی تباہی سے تعبیر کیا ہے۔