جی ایچ ایم سی میں بلدیات کے انضمام سے عہدیداروں کو مشکلات

   

حیدرآباد ۔ 9 ۔ دسمبر : ( سیاست نیوز ) : جی ایچ ایم سی میں 27 اربن بلدیاتی اداروں کے انضمام سے پیدا ہونے والے مسائل بلدیہ کے عہدیداروں کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے ۔ صفائی ، سڑکوں ، گلیوں کی دیکھ بھال اور تعمیراتی شعبے کی اجازت کے علاوہ پراپرٹی ٹیکس کے حساب کتاب پر بھی ابہام ہے ۔ انضمام شدہ 27 میونسپلٹی کے تحت جائیدادوں کی تفصیلات سی جی جی ( سنٹر گڈگورننس ) کے ذریعے جی ایچ ایم سی کے ریکارڈ میں منتقل کردی گئی ہیں ۔ اس تناظر میں جائیداد ٹیکس کے حساب کتاب کے بارے میں حکام کی جانب سے واضح نہ ہونے سے عوام اور افسران دونوں میں الجھن پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ پراپرٹی ٹیکس کا حساب لگانے کے دوطریقے ہیں ۔ دراصل جی ایچ ایم سی حدود میں کرایہ کی قیمت کی بنیاد پر پراپرٹی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے ۔ 27 میونسپلٹیز میں کیپٹل ویلیو ( سب رجسٹرار ویٹ ) کی بنیاد پر پراپرٹی ٹیکس وصول کیا جارہا ہے ۔ تاہم جی ایچ ایم سی میں 27 میونسپلٹیوں کے انضمام سے شہر کے باشندوں میں ایک ہی علاقے میں دو طرح کی جائیداد ٹیکس جمع کرنے پر الجھن ہے ۔ جی ایچ ایم سی حدود میں 19.49 لاکھ جائیدادیں ہیں ۔ ان میں سے 10.35 لاکھ رہائشی ، 2.80 لاکھ غیر رہائشی اور 34 ہزار مخلوط ہیں ۔ گزشتہ سال 2038.42 کروڑ روپئے پراپرٹی ٹیکس کے طور پر جمع ہوئے اس بار بلدیہ نے مالی سال 2025-26 کے لیے 2500 کروڑ روپئے پراپرٹی ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے ۔ تاہم اس نے فی الحال 1500 کروڑ روپئے سے زیادہ جمع کئے ہیں ۔ انضمام سے آمدنی میں مزید اضافہ ہوگا ۔ تاہم حکام فی الحال نافذ العمل دو پالیسیوں کو جاری رکھنے یا تبدیلیاں کرنے پر غور کررہے ہیں ۔ 27 میونسپلٹیوں سے جمع ہونے والا پراپرٹی ٹیکس اس طرح سے وصول کیا جائے گا جو سی ڈی ایم اے کے تحت تمام میونسپلٹیوں میں جمع کیا جاتا ہے یا انہیں جی ایچ ایم سی ایکٹ کے مطابق اکٹھا کر کے عوام پر بوجھ ڈالا جائے گا ۔ یہ دیکھنا باقی ہے ۔۔ ش