جی ایچ ایم سی نے شہر میں ’ کھچڑی ڈیکوریشن ‘ سے اسٹریٹ آرٹ کو تباہ کردیا

   

حیدرآباد ۔ 3 ۔ فروری : ( سیاست نیوز) : خوبصورتی کی پہچان کو عام طور پر کسی شہر کے یلیمنٹس کی ترتیب سے جوڑا جاتا ہے ، خوبصورتی اور کام ، دونوں کا ایک امتزاج ہوتا ہے ۔ لیکن شہر حیدرآباد ایک بکھرا ہوا میوزیم ہے ۔ یہاں آرٹ ہے لیکن وہ سب بکھرا ہوا ہے ۔ اگرچیکہ شہر میں اسٹریٹ آرٹ بڑھ رہا ہے تاہم عوامی مقامات پر مختلف وجوہات کی بنا خوبصورتی ماند پڑ رہی ہے ۔ یہ سب گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن میں منصوبہ بندی کے فقدان کا نتیجہ ہے ۔ جی ایچ ایم سی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ حیدرآباد میں پبلک الیستھیٹکس چیریٹی کا نتیجہ ہیں ۔ ’ زیادہ تر پبلک آرٹ ورک جو ہم شہر میں دیکھتے ہیں آرٹسٹس کا خود کا اظہار ہوتا ہے ۔ وہ یہ کام ہمارے لیے کرتے ہیں ہم انہیں ان کی خواہش کے مطابق ہر چیز کے اظہار کی اجازت دئیے ہیں ۔ سوائے اس کے کہ اس میں ہمارے کلچر کے خلاف کوئی چیز نہ ہو ۔ شہر میں کیا جانے والے آرٹ ورک بے مثال ہوتا ہے کیوں کہ آرٹسٹس مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ نا مکمل ہوتا ہے کیوں کہ آرٹسٹس اس کے لیے خود ان کے فنڈس کا استعمال کرتے ہیں ۔ شہر میں فلائی اوورس کو ورٹیکل گارڈنس اور جزوی مورلس کے ساتھ وقفہ دے کر ڈیکوریٹ کیا گیا ہے ۔ درمیان میں اشتہارات اور بلینک پلرس ہیں ۔ ایک دیکھنے والے کو یہ ایک مسخ شدہ کینوس کی طرح دکھائی دیتا ہے ۔ جواہر لال نہرو آرکیٹکچر اینڈ فائن آرٹس یونیورسٹی کی وائس چانسلر کویتا راؤ نے یہ بات کہی ۔ اور کہا کہ اگر آرٹ ورکس میں سینکرونی نہ ہو تو ، مثال کے طور پر فلائی اوورس کے نیچے عوام اس کی بے اختیار ستائش نہیں کرسکتے جے این اے ایف اے یو کے ایک پروفیسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ کہا کہ مانصاحب ٹینک کے قریب فلائی اوور ، گرین لینڈ فلائی اوور پر آرٹ ورکس کو اب ورٹیکل گارڈنس سے چھپا دیا گیا ہے ۔ جی ایچ ایم سی کی جانب سے شہر کو غارت کیا جارہا ہے ۔ ان میں خوبصورتی کا منظر نہیں ہے ۔ وہ سڑکوں پر ایسے کلرس کا استعمال کرتے ہیں جو اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے ۔ ان کے مطابق ہائی ٹیک سٹی جیسے علاقوں میں درخت کے پیڑوں پر بھڑکیلا رنگ خوبصورت ہے ‘ ۔۔