حیدرآباد ۔ /8 اگست (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کی جانب سے ہر سال گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) کے مجوزہ بجٹ کے مقابل تقریباً 2000 کروڑ روپئے کم خرچ کرتی ہے ۔ حق معلومات کے ایک جواب میں یہ بات معلوم ہوئی ۔ سماجی جہد کاروں کے الزام کے مطابق اس سے گریٹر حیدرآباد میں بلدی سہولتوں کی فراہمی بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ ریٹائرڈ آئی ایف ایس عہدیدار ایم پدمنابھا ریڈی نے کہا کہ ’’جی ایچ ایم سی میں ، جہاں ریاست کی آبادی کا 30 فیصد حصہ ہے اور اس کا 70 فیصد ریونیو یہاں سے حاصل ہوتا ہے ، فنڈس کی قلت ہے ۔ جی ایچ ایم سی کے سالانہ بجٹ سے حیدرآباد میں رہنے والے لوگوں کے تیئں حکومت کی بے اعتنائی کی عکاسی ہوتی ہے ۔ جی ایچ ایم سی کا مالی موقف بہت خراب ہے ، تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے فنڈس نہیں ہیں ، کروڑہا روپئے کے جو کام کئے گئے ہیں ان کے بلز کی ادائیگی زیرالتواء ہے ‘‘ ۔ ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد 2015 ء میں اسٹیٹ فینانس کمیشن (ایس ایف سی) تشکیل دیا گیا لیکن حکومت نے ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ درخواست داخل کرنے کے بعد ہی کمیشن کے چیرپرسن اور ممبرس کا تقرر کیا ۔ مجالس مقامی کے مالی موقف کا جائزہ لینے کے بعد اسٹیٹ فینانس کمیشن نے اکٹوبر 2020 ء میں اس کی رپورٹ گورنر کو روانہ کی جنہوں نے اس پر اسے حکومت کو کمیشن کی سفارشات پر عمل کیلئے حکومت کو روانہ کی ۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ بات افسوسناک ہے کہ حکومت نے کمیشن کی سفارشات پرکوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی ان سفارشات کو مقننہ میں پیش کیا ۔ مجالس مقامی ، جنہیں ایک حق کے طورپر فنڈس حاصل کرنے چاہئیے ، چیاریٹی کیلئے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں ‘‘ ۔ پدمنابھا ریڈی نے کہا کہ اسٹیٹ فینانس کمیشن نے ریاست کے 11 فیصد ریونیو کو مجالس مقامی کو منتقل کرنے کی سفارش کی تھی ‘‘ ۔ انہوں نے کہا کہ ’’پڑوسی ریاست کرناٹک میں 48 فیصد ریونیو مجالس مقامی کو منتقل کیا جاتا ہے ۔ نئی گرام پنچایتوں ، منڈل پرجا پریشدس اور ضلع پرجاپریشدس کو ان کے انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کیلئے خصوصی گرانٹس دیئے جانے چاہئیے ‘‘ ۔ ایس ایف سی نے سفارش کی تھی کہ پنچایتیں اور شہری مجالس مقامی میں پولڈ وسائل کی تقسیم 60:40 کے تناسب میں ہونی چاہئیے اور آبادی پر فنڈس کی تقسیم 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق ہونی چاہئیے ۔ مالیاتی سال 2021-22 کیلئے حکومت تلنگانہ کا سالانہ بجٹ 1.76 لاکھ کروڑ روپئے ہے ۔ اگر اسٹیٹ فینانس کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے تو گرام پنچایتیں اور شہری مجالس مقامی کو مرکزی گرانٹس سے ان کے حصہ کے حق کے طور پر 20,000 کروڑ روپئے جاری کرنے ہیں ۔ مرکزی حکومت پنچایتوں کو سالانہ 1365 کروڑ روپئے دیتی ہے جبکہ ریاستی حکومت اس کے مساوی رقم انہیں فراہم کرتی ہے ۔ اس کا مطلب ہے ماہانہ تقریباً 114 کروڑ روپئے ریاستی حکومت کی جانب سے گرام پنچایتوں کو جاری کئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ’’گرام پنچایتوں کو ماہانہ 300 کروڑ روپئے جاری کرنے سے متعلق ریاستی حکومتوں کے دعوؤں پر وضاحت کی ضرورت ہے ۔