راج دیپ سردیسائی
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے قیام سے بہت قبل مہاراجہ سایاجی راؤ یونیورسٹی آف بروڈہ، وڈوڈرا وجود میں آئی۔ مئی 2007ء میں وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کارکنوں کے گروپ نے یونیورسٹی میں جاری ایگزبیشن پر ہلہ بول دیا، جس کا اہتمام فائن آرٹس اسٹوڈنٹ چندرا موہن نے کیا تھا۔ اسے مار پیٹ کی گئی۔ اس سارے دنگے کی وجہ کے طور پر دعویٰ کیا گیا کہ اُس کی پینٹنگس سے اُن کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس کے فوری بعد پولیس داخل ہوئی اور آرٹسٹ کو گرفتار کرلیا۔ جب فیکلٹی والوں نے مداخلت کی، انھیں بھی گرفتار کرلینے کا انتباہ دیا گیا۔ وائس چانسلر (وی سی) نے کوئی فرسٹ انفرمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) داخل کرنے یا اسٹوڈنٹس کی کچھ بھی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بجائے فیکلٹی کو معطلی کی نوٹسیں دی گئی جبکہ وی ایچ پی کارکنوں کو پولیس نے جانے دیا۔
سب کچھ سنا سنا سا معلوم ہوتا ہے؟ سچائی یہ ہے کہ جس طرح آزادی سے نقاب پوش غنڈوں کے ہجوم نے جے این یو کیمپس میں جارحیت کا مظاہرہ کیا، جبکہ بزدل اور جانبدار اڈمنسٹریشن نے بے عملی کو ترجیح دی۔ یہ سب کوئی تقدیم کے بغیر نہیں ہے اور یہی ظاہر کرتا ہے کہ یونیورسٹیوں کو بندشوں سے آزاد مملکتی طاقت کے ذریعے ’’کنٹرول‘‘ کرنے کا سسٹم وڈوڈرا سے قومی دارالحکومت کے قلب کو منتقل ہوگیا ہے۔ خاص طور پر گجرات میں حالیہ عرصے میں ڈسپلن لاگو کرنے کے نام پر کیمپس میں ہر قسم کی ناراضگی کو کچل دینے کی سوچی سمجھی کوشش دیکھنے میں آئی ہے۔ کیمپس کو سیاسی رنگ سے آزاد کرنے کی دانستہ سعی تعلیمی معیارات کو بلند کرنے کے خیال سے نہیں ہوئی ہے، بلکہ مضحکہ خیز گروہ بندیوں کو یقینی بنانے کیلئے کیا گیا، جو اسٹوڈنٹ کمیونٹی کو متنازع مسائل پر حرکت میں آنے سے روکتا ہے۔
اسٹوڈنٹ یونین کے الیکشن بے قاعدگی سے منعقد کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گجرات یونیورسٹی نے گزشتہ چار سال اسٹوڈنٹ الیکشن منعقد نہیں کرائے، اور گزشتہ ہفتے ہی حکام نے آخرکار مارچ میں انتخابات کے انعقاد کی پیشکش کی ہے۔ مزید پریشان کن تو وی سی کا یونیورسٹیوں کی سربراہی کیلئے انتخاب ہے، جو بالکلیہ برسراقتدار پارٹی سے اُن کی وفاداری کی اساس پر ہوتا ہے۔ گجرات یونیورسٹی کے ایک سابق وی سی اپنی میعاد ختم ہونے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان بن گئے، جبکہ موجودہ کارگزار وی سی بھی پارٹی عہدہ دار ہیں۔ ایک بی جے پی میڈیا سل ممبر کچھ یونیورسٹی کا وی سی ہے اور یہی معاملہ نارتھ گجرات یونیورسٹی کا بھی ہے۔ وائس چانسلرس کو اکثر سابقہ حکومتوں کی جانب سے بھی اُن کی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر مقرر کیا جاتا رہا ہے، لیکن پارٹی ممبرز کو کسی یونیورسٹی کی سربراہی کیلئے منتخب کرنے میں سراسر ڈھٹائی خودمختار اداروں کے کسی بھی دعوے کو بکواس بنادیتی ہے۔
حتیٰ کہ گجرات میں پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی سیاسی دباؤ کو روکنے سے قاصر ہوئی ہیں۔ مثلاً احمدآباد یونیورسٹی کو ممتاز تاریخ داں رامچندر گوہا کے بطور معزز پروفیسر تقرر سے دستبرداری پر مجبور ہونا پڑا جب سیاسی قیادت نے مبینہ طور پر اس کو رد کردیا۔ گوہا بی جے پی؍ سنگھ پریوار کے ناقد رہے ہیں، لیکن ایک ٹھوس دانشور اور گاندھی کی سوانح حیات لکھنے والے کو مہاتما کی سرزمین پر ہی تدریس کا موقع دینے سے محض اُن کے نظریاتی افکار کی بناء محروم کردینا عکاس ہے کہ گجرات اس ریاست کی عظیم ترین شخصیت کے جذبہ رواداری اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خاصیت سے کس حد تک دور چلا گیا ہے۔
عجیب بات ہے کہ گجرات کے اسٹوڈنٹس نے ہی سب سے پہلے مخالف سسٹم برہمی کی چنگاری جلائی جو آگے چل کر 1970ء کے دہے میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف وسیع تر اور ملک گیر احتجاجی تحریک میں تبدیل ہوئی۔ خود نریندر مودی کا نو َنرمان آندولن کا حصہ رہنے کا دعویٰ ہے جو 1973ء میں شروع ہوا تھا جب احمدآباد کے مقامی کالج میں اسٹوڈنٹس نے ہاسٹل میں کھانے کی فیس میں 20% اضافہ کے خلاف بطور احتجاج ہڑتال کردی تھی، اور ایجی ٹیشن تیزی سے ریاست بھر میں پھیل گیا تھا۔ آج عین ممکن ہے 1970ء کے دہے والے طلبہ احتجاجیوں کو حکومت ’’اربن نکسل‘‘، ’’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘‘ اور ’’قوم دشمن‘‘ قرار دیا جائے گا جن کو پاکستان کی طرف ڈھکیل دینے کی ضرورت ہے۔
کبھی ناراضگی کی گنجائش کی قدر ہوتی تھی، اور حتیٰ کہ تائید بھی کی گئی، آج کچھ بھی اختلاف رائے پر فوری ذلیل کیا جاتا ہے۔ کبھی کوئی سیاسی موقف اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، آج اسٹوڈنٹس کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی ترک کرنے کیلئے وہی قائدین مجبور کررہے ہیں جو اسٹوڈنٹ پالیٹکس کی پیداوار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیمپسوں کو ’’کنٹرول‘‘ کرنے کی ضرورت کیلئے خاص برسراقتدار طبقہ نے جو عذر لنگ پیش کیا، وہ یہ ہے کہ ٹھیک اسی طرح اُن کے حریفوں کا طرزعمل رہا جب وہ اقتدار میں تھے۔
مغربی بنگال میں لیفٹ فرنٹ کی طویل حکمرانی کے دوران تشدد اور دھمکی کے اُن کے کلچر کی اکثر مثال دی جاتی ہے کہ کس طرح گھٹیا سیاست اعلیٰ تعلیمی معیارات میں تیزی سے تنزلی کا موجب بن سکتی ہے۔ ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کی جانب سے تحدیدات کا بھی یونیورسٹیوں کی سکڑتی خودمختاری کے تناظر میں ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دلیل کہ ’’اگر وہ کرسکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟‘‘ اخلاقی اعتبار سے ناقص اور سیاسی طور پر مائل بہ رجحان ہے۔ بی جے پی نے خود کو ’’مختلف نوعیت کی پارٹی‘‘ قرار دینے میں فخر کیا ہے اور مودی حکومت نے حکمرانی کے ’’گجرات ماڈل‘‘ پر محیط ’’نئے‘‘ انڈیا ویژن پر دو مرتبہ متواتر انتخابی اکثریت جیتی ہے۔ اس ماڈل کا مقصد ہندوستان کی اگلی نسل کو ’’اچھے دن‘‘ فراہم کرنا ہے، نہ کہ اسٹوڈنٹ کمیونٹی کو ’رائٹ‘ اور ’لیفٹ‘ کے درمیان کچھ اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ہمارے کیمپس خونریز ہوجائیں۔ درحقیقت، یہ کوئی ’دائیں بازو‘ بمقابلہ ’بائیں بازو‘ کا معاملہ نہیں بلکہ سادہ طور پر بیان کریں تو ’صحیح‘ بمقابلہ ’غلط‘ ہے۔
اختتامی تبصرہ
جے این یو میں لیفٹ اور رائٹ ونگ کے اسٹوڈنٹ گروپس ایک دوسرے پر الزام تھوپ رہے ہیں کہ کس نے تشدد شروع کیا، لیکن کچھ فیکلٹی کا بھی سوچیں۔ کیا ٹیچروں کو مارنا ’’بھارتیہ سنسکرتی‘‘ ہے؟ اور اگر کیمپس میں ٹیچرز محفوظ نہیں ہیں تو پھر کون ہیں؟ یہ نہ بھولیں کہ طویل عرصے سے برسرخدمت ایم ایس یونیورسٹی فیکلٹی ممبر پروفیسر جے ایس بندوق والا ہی تھے جن کے وڈوڈرا میں مکان کو 2002ء کے گجرات فسادات کے دوران غارت کیا گیا تھا۔ آج تک گجرات نظم و نسق سے کسی نے پروفیسر سے ملاقات کرکے کچھ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا، شاید اس لئے کہ انھیں ہندوتوا سیاست کا کٹر ناقد سمجھا جاتا رہا ہے۔ تو پھر کیا یہ مثالی معاملہ ہے کہ جو کچھ گجرات نے کل سوچا تھا، بقیہ ملک کو لازماً آج سوچنا چاہئے؟
[email protected]