جے این یو میں ’’چکن‘‘ پر تنازعہ

   

ڈی کے سنگھ

دہلی کی باوقار جواہر لال نہرو یونیورسٹی ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ اس مرتبہ ہاسٹل میں کھانے کے مینو کو لے کر ہوئی پرتشدد جھڑپوں کیلئے وہ سرخیوں میں آئی ہے۔ بائیں بازو سے وابستہ طلبہ کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی کی طلباء ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے کارکن رام نومی پر چکن تیار کرنے کے خلاف تھے جبکہ اے بی وی پی کا دعویٰ ہے کہ انہیں یونیورسٹی میں پوجا کرنے سے روکا جارہا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جے این یو میری مادر علمی ہے۔ میں خود کو نظریاتی طور پر بیان کرنے کی جدوجہد کررہا ہوں۔ میں نے ایک آزاد مفکر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور پھر جہاں سے میں نے شروع کیا تھا، وہاں واپس آنے سے پہلے بہت سے نظریات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کی۔
بہرحال جے این یو میں جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے، اس پر متنازعہ بحث کیلئے تیار ہوجائیں۔ آپ کو بتادوں کہ جے این یو میں مختلف نظریات سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات زیور علم سے آراستہ ہوتے ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ میں نے خود ایک ایسے ہم جماعت کو ووٹ دیا جو اے بی وی پی سے تعلق رکھتا تھا اور کونسلر کے عہدہ کا انتخاب لڑ رہا تھا۔ وہ سخت نان ویجیٹیرین تھا اور اس نے کبھی کسی پوجا کا بھی اہتمام نہیں کیا، اس کے باوجود وہ جیت گیا۔ ویسے میں حیرت ہوں کہ جے این یو طلباء نے کب سے کیمپس میں پوجا یا ہون کا اہتمام کرنا شروع کیا؟ آپ کو یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب میں نوراتری کے دوران برت یا روزہ رکھتا ہوں تو مکمل طور پر سبزی خور ہوں لیکن میں نے اس صورت میں نان ویجیٹیرین کھانا کھایا ہے جب اس نوراتری کے دوران میں نے روزہ نہیں رکھا۔ ہمارے دورِ طالب علمی کے دوران جے این یو میں کبھی اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے تھے۔ کھانے کے مسئلہ پر کوئی جھگڑے نہیں ہوتے بلکہ کھانے کی میز پر دائیں ۔ بائیں اور مرکز سے تعلق رکھنے والے طلبہ بیٹھے ہوتے، ہاں میزیں ان گروپوں کے نظریات پر مبنی پرچوں سے بھری ہوتی تھیں۔ بہرحال اب یہ کہنا کہ جے این یو جیسے ادارہ میں کھانے کے انتخاب یا پسند پر خون بہایا جارہا ہے، اس بات کو ہضم کرنا مشکل ہے۔ جے این یو کے بارے میں دو متضاد دلائل دیئے جاتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان ہی مسئلہ پر بھی گرما گرم مباحث ہوں۔ ایک گروپ ایسا ہے جو جے این یو کو ’’ملک دشمن و مخالف ہندو‘‘ اور ’’تکڑے تکڑے گیانگ‘‘ کا گڑھ کہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ لوگ کنہیا کمار، عمر خالد اور دیگر کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرا گروپ اے بی وی پی سے جو آر ایس ایس سے وابستہ ہے، اس کے بارے میں اولذکر گروپ کا ماننا ہے کہ اے بی وی پی کا نظریہ تفرقہ پرور اور عدم برداشت کا حامل ہے۔ خواہ وہ کسی کے عقیدہ پر عمل کرنے کا معاملہ ہو یا کسی کا لباس زیب تن کرنے یا پھر کسی کے کھانا کھانے کے حق کا معاملہ ہو ۔ ایک بات ضرور ہے کہ کچھ عرصہ سے جے این یو کو مسلسل بدنام کیا جارہا ہے۔ مثلاً 2018ء کے اوائل میں جب بھیماکورے گاؤں تشدد کے تناظر میں احتجاج زور پکڑتا جارہا تھا، اس وقت میں نے ایک غیررسمی بات چیت کیلئے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار سے ملاقات کی۔ جب میں نے اس سے دریافت کیا کہ بھیماکورے گاؤں واقعہ اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات وہ کیسے دیکھتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: ’’آپ کو پتہ ہے، اس کے پیچھے کون؟ جیسے ہی میں نے سَر ہلایا، اس نے کہا ’’اس کے پیچھے جے این یو والے ہیں‘‘، مجھے اس کے جواب سے حیرت ہوئی، اس لئے کہ مہاراشٹرا پولیس نے اسے ماؤ نواز سازش قرار دیا تھا لیکن ایک ذمہ دار سرکاری عہدیدار اس میں جے این یو کو گھسیٹ رہا ہے۔
آپ کو بتادوں کہ 1960ء کی دہائی میں جب موجودہ نائب صدرجمہوریہ وینکیا نائیڈو کالج میں زیرتعلیم تھے۔ ان کی ایک جان پہچان والے نے انہیں آر ایس ایس میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ وینکیا نائیڈو ہچکچا رہے تھے کیونکہ وہ سوچ رہے تھے کہ سنگھ پریوار ان سے نان ویجیٹیرین کھانا بند کرنے کو کہے گا، بعد میں ان کے ماننے والے نے وینکیا نائیڈو کو سنگھ کے ایک سینئر کارکن کے پاس لے گئے جس نے انہیں بتایا کہ کس طرح سنگھ پریوار کھانے کے انتخاب میں کبھی مداخلت نہیں کرتا۔ مودی اور امیت شاہ سبزی خور ہوسکتے ہیں لیکن مرکزی وزراء ، بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ اور قائدین کی ایک بڑی تعداد ہے جو پرجوش نان ویجیٹیرین ہے۔اس طرح آر ایس ایس کے سیوک یا رضاکار بھی جو چاہیں ’’چکن یا مٹن‘‘ کھانے کیلئے آزاد ہیں۔