حاتم طائی کا ایثار

   

پیارے بچو! عرب میں اسلام آنے سے پہلے جہاں ہر طرف برائیاں ہی برائیاں تھیں ، وہیں کچھ اچھے لوگ بھی تھے جن میں سے ایک حاتم بھی تھا۔حاتم کے بارے میں بے شمار قصے بیان کئے گئے جن میں سے اگر حد سے زیادہ تعریف والی کہانیاں نکال بھی دی جائیں تب بھی حقیقت میں حاتم کی سخاوت ایک مثال بن چکی تھی۔دین اسلام میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت مثالی ہے،اُن کے متعلق بے شمار واقعات مشہور ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت عثمان غنی ؓکے مال اور عطیات وسخاوت کی وجہ سے اسلام کو دنیا کے مختلف حصوں تک پہونچانے میں بڑی سہولت ملی۔
حاتم کا تعلق ’’طے‘‘نامی ایک قبیلے سے تھا۔اِسی کی نسبت سے اُسے ’’حاتم طائی‘‘ کہا جاتا ہے۔حاتم طائی 6 ویں صدی عیسوی میں یمن کا ایک بادشاہ اور شاعر تھا۔ حاتم طائی نے نوار نامی عورت سے شادی کی تھی پھر یمن کے بادشاہ کی بیٹی ماویہ بنت عفرز سے بھی حاتم طائی نے نکاح کیا تھا۔ اِن دونوں بیویوں سے حاتم کے 3 بچے عبداللہ ، سفانہ اور عدی تھے۔اس کی بیٹی سفانہ عروج اسلام کے زمانے میں گرفتار ہو کر دربار ِنبوت میں پیش ہوئی تو اس نے نبی اکرم ؐکے سامنے اپنے والد کی خوبیوں اور اچھائیوں کا ذکر کیا۔ رسول اللہ ؐنے اُس کو رہا کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا : حاتم کے اسلامی اخلاق تھے۔ آخری دونوں نے نہ صرف اسلام کا دور پایا بلکہ حاتم طائی کے ایک خوش قسمت بیٹے عدی بن حاتم نے اسلام قبول کیا تھا۔
حاتم طائی ایک بہادر اور سخی بادشاہ کے علاوہ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ اُن کا دیوان پہلی مرتبہ رزق اللہ حسون کی جانب لندن سے 1876ء میں شائع کیا گیا پھر 1897ء میں حاتم طائی کے دیوان کا ترجمہ جرمن زبان میں بھی چھاپا گیا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ یمن پر حاتم طائی کی حکومت تھی جبکہ یمن کا علاقہ عرب سے جڑا ہوا تھا۔عرب پر اُن دنوں نوفل نامی بادشاہ کی حکومت تھی۔وہ حاتم کی سخاوت اور علاقے میں شہرت و مقبولیت سے بہت پریشان تھا۔اُس کی سخاوت سے محض یمن کے لوگ ہی فائدہ نہیں اُٹھاتے تھے بلکہ اُس تک پہنچ جانے والا ہر شخص اُس کی سخاوت سے فائدہ اُٹھاسکتا تھا۔بہت سے لوگ تو محض اس کا امتحان لینے ہی اس کے پاس چلے جاتے تھے لیکن وہ ہمیشہ ہر امتحان میں کامیاب ہوتا۔ایک مرتبہ کسی کو معلوم ہوا کہ حاتم طائی کے ذاتی استعمال کا گھوڑا بہت قیمتی ہے کیوں نہ وہ حاصل کیا جائے،چنانچہ ایک شخص اُس کا امتحان لینے پہنچ گیا۔حاتم اُس روز شکار کرنے کیلئے نکلا ہوا تھا۔اتفاق سے اُس روز اُسے شکار بھی نہیں ملا۔جب وہ واپس پہنچا اور اُسے معلوم ہوا کہ کوئی مہمان اُس کا انتظار کر رہا ہے تو اُس نے اپنے ملازمین سے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ایک ملازم نے کہا:’’سرکار! آج کھانے میں گوشت کا سالن نہیں بن سکے گا کیونکہ تازہ گوشت نہیں ہے!‘‘حاتم کی غیرت اس بات کو گوارا نہیں کرسکتی تھی کہ اُس کے دسترخوان پر مہمان کیلئے گوشت کا سالن بھی نہ ہو۔اُس نے کہا آج ہمارا محبوب گھوڑا ہی ذبح کر کے پکا لیا جائے۔یہ فیصلہ ہوئے اُسے شدید دُکھ بھی ہورہا تھا مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔کھانا تیار ہوا،حاتم نے اپنے مہمان کی تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔مہمان بھی بہت خوش تھا۔صبح جب مہمان کے جانے کا وقت ہوا تو مہمان نے رخصت ہونے سے قبل اُس کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اورکہا کہ اُس نے حاتم کی سخاوت کی بڑی شہرت سُنی ہے اگر وہ اپنا پسندیدہ گھوڑا بھی اُسے عنایت کردے تو بڑی مہربانی ہوگی۔
حاتم اُس کی یہ بات سن کر کچھ غم زدہ ہوا مگر پھر کہنے لگا: ’’ میرے معزز مہمان! یہ فرمائش اگر آپ پہلے ہی کردیتے تو اس کی تعمیل ضرور کرتا مگر اب یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ میرا پسندیدہ گھوڑا اب آپ کے پیٹ میں پہنچ چکا ہے۔اس کیساتھ ہی اُس نے ساری مجبوری بتائی اور اُسے اشرفیوں سے بھری تھیلی نذرانہ کے طور پر دی کہ اس دولت سے وہ اس گھوڑے سے بھی قیمتی گھوڑا خرید سکے گا۔مہمان ،حاتم کی سخاوت کا گرویدہ ہونے کے ساتھ ساتھ پشیمان بھی تھا کہ اُس کی وجہ سے ایک قیمتی گھوڑا ذبح ہو گیا۔اس نے اَشرفیوں کی تھیلی لینے سے اِنکا ر کردیا مگر حاتم نے کہا : ’’یہ آپ کو رکھنا ہی ہوگا کیونکہ میں اپنے مہمان کی فرمائش پوری نہ کرسکا۔ حاتم سخی ہونے کیساتھ ساتھ بہت نرم دل بھی تھا۔اُس روز اسے اس بات کا ملال ہورہا تھا کہ وہ اپنے مہمان کی خواہش پوری کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ مہمان اُس کی نرم دِلی اور سخاوت کے گن گاتا ہوا اپنے گھر چلاگیا۔ (باقی سلسلہ کل)