حجاب : ایک غیرضروری تنازعہ

   

فوزیہ امجد
اللہ نے دنیا میں بے شمار مخلوقات کی تخلیق کی اور ان میں انسان اعلیٰ مخلوق ہے۔ اللہ کی عطا کی گئی صلاحیتوں میں سب سے اہم ذہنی صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے ماحول سے باشعور کرتی ہے اور جس نے اپنے اطراف کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی ، وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ انسان سے بڑھ کر ایک ایسی ہستی ہے جو اس پر کنٹرول رکھتی ہے تاکہ انسان اس سے مستفید ہوسکے۔ اس ہستی کے تصور نے مذہب کا تصور پیدا کیا یعنی دنیا کو بنانے والا خالق ، جنت سے زمین پر اُتارے جانے کے بعد انسانی نسل کی افزائش کی وجہ سے نسلیں دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئیں جو جغرافیائی لحاظ سے جدا جدا تھے۔ ان میں رہنے اور بسنے کے بعد ہر نسل نے ایک طرز زندگی اپنالی جس کو ہم ’’کلچر‘‘ کہتے ہیں۔ مختلف حصوں میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد انسان نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کی کوشش کی۔ مثلاً سیاسی پہلو جس میں ایک سربراہ اور اس کے تحت مختلف گروہ معاشی پہلو جس میں زندگی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے شکار کھیتی باڑی تجارت اور دیگر معاشی کارکردگی شامل ہیں۔ تہذیبی اور تمدنی پہلو جس میں عادات، اطوار رسم و رواج، روایات اور عقیدہ جس کا تعلق زیادہ تر مذہب سے ہے اور عقیدے کے مطابق ان پر روبہ عمل ہونا انسانی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ اپنے خالق حقیقی کو جاننا، اس کے قریب ہونے کی کوشش کرنا اور اپنے اپنے نظریات کے مطابق اس کا اظہار کرنا ہے۔
مذہبی عقیدہ بھی ایک ایسا عمل ہے جو انسانی سوچ، اُس کے خیالات اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ ضروری ہے کہ نظریات اور خیالات میں یکسانیت ہو، اس لئے دنیا میں ایک مذہبی عقیدے کے بجائے مختلف عقائد اور مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں۔
دنیا کے متعدد مذاہب میں اسلام بھی ایک مذہب ہے اور ہر مذہب کی طرح اس کے بھی اپنے اُصول، طرز زندگی اور عقیدہ، اللہ پر یقین اور ایمان کا اظہار مختلف طریقے سے کرنا شامل ہے۔ مذہب اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق بھی واضح کردیئے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو وحدانیت پر مبنی ہے، یعنی اللہ واحد ہے اور اس کے سواء کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ مزید اسلام حدیث اور فقہ پر مشتمل ہے۔ ان سب میں عورت کو یہ ہدایت ہے کہ باہر نکلنے سے پہلے اپنے آپ کو پوری طرح ڈھانک لیں۔ رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ائے مسلم خاتون!جب بھی باہر جانے کی ضرورت ہو، اپنے چہرے اور سینے پر چادر ڈال لیا کرو اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، یہ اللہ کا حکم ہے کیونکہ ایک شخص جب کلمہ پڑھتا ہے تو اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کی پناہ میں دے دیتا ہے۔ جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے اپنے طور طریقے، عادات و اطوار اور عقائد پر عمل کرتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی اپنے اللہ اور رسول کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہیں۔
حجاب یعنی پردہ یا اوٹ مسلمانوں کیلئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ عورت اور مرد کو سترپوشی کا حکم دیا گیا ہے۔ عورت کو اپنے جسم کی ستر پوشی سر سے لے کر پاؤں تک کرنا ہے۔ مرد کو ناف سے لے کر گھٹنوں تک اور ساتھ ہی ساتھ یہ حکم بھی ہے کہ دونوں کیلئے نظروں کا بھی پردہ ضروری ہے۔ یہ عمل مسلمانوں میں صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے حکم پر عمل کرے۔
ہندوستان میں پچھلے کچھ مہینوں میں حجاب کے خلاف فتنہ کھڑا کیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو دستورِ ہند میں مذہبی آزادی کا حق شامل ہے۔ ہندوستانی خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اسے کسی بھی مذہب کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
ہر قوم کی پہچان ، اس کی شناخت اور عزتِ نفس سے ہوتی ہے۔ اپنی شائستگی اور پروقار عادات و اطوار سے ہوتی ہے۔ اگر قوموں سے ان کی شناخت اور عزت ِنفس ہی چھین لی جائے تو اس کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ فتنہ پھیلانے والے اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود ہی ختم ہوجائے جو کبھی ہو نہ سکے گا۔