حجاب فرض ہے، عدالتیں تعین کرنے کی اہل نہیں

,

   

صنف نازک کیلئے سر کو چھپانا ضروری۔ سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں کی بحث

نئی دہلی : سپریم کورٹ کو آج حجاب کیس میں درخواست گذاروں نے بتایا کہ مذہبی احکام کے مطابق حجاب لگانا فرض ہے اور عدالتیں اس کی فرضیت کا تعین کرنے کی اہل نہیں ہیں۔ بعض درخواست گذاروں کے نمائندہ سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ کے روبرو بیان دیا کہ جب یہ معلوم تھا کہ حجاب لگانا باقاعدہ اور مسلمہ عمل ہے تو اس کی اجازت تھی اور کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا لیکن تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ کے بہانے حجاب نئی چیز بنادی گئی۔ انہوں نے بیجو ایمانیول کیس میں فاضل عدالت کے فیصلہ کا حوالہ بھی دیا۔ دھون نے کہا کہ کرناٹک ہائیکورٹ کا فیصلہ الجھن آمیز ہے کیونکہ اس نے کہا کہ حجاب جرمانہ یا سزاء کی صراحت کے فقدان کی وجہ سے لازمی نہیں ہے۔ بنچ نے دھون سے استفسار کیا کہ ان کی دلیل ہیکہ عدالتیں اس معاملہ کا فیصلہ کرنے کیلئے درکار علمیت کی حامل نہیں ہے اور اگر ایسا تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو پھر کونسا فورم اس کا فیصلہ کرے گا؟ دھون نے کہا کہ تنازعہ کیا ہے؟ آیا حجاب لازمی عمل ہے؟ انہوں نے کہا کہ حجاب سارے ملک میں لگایا جاتا ہے اور جب تک یہ باضابطہ اور رائج عمل ہے، اس کی اجازت ضرور دینا چاہئے اور مذہبی متن میں حوالے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔ دھون نے دلیل پیش کی کہ مذہب کے شعائر کے مطابق اگر کسی چیز کی تعمیل کی جاتی ہے تو اس کی اجازت سمجھی جاتی ہے اور یہ باقاعدہ رائج عمل ہوتا ہے تو دوبارہ مذہبی متن میں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں اور اگر کسی برادری کے عقیدہ کو ثابت کردیا جاتا ہے تو پھر جج کو اس عقیدہ کو قبول کرنا ہوگا، نہ کہ اس عقیدہ کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر کیا جائے۔ کرناٹک ہائیکورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے ایڈوکیٹ نے کہا کہ قرآنی احکام اور احادیث کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہیکہ صنف نازک کیلئے سر کو چھپانا فرض ہے۔ بنچ نے سوال کیا کہ اسے فرض کہنے کی اساس کیا ہے؟۔ جسٹس گپتا کے اس سوال پر دھون نے کہا کہ کیرالا کے کیس میں جو منطق ہے وہ یہ کہ 2016ء میں آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ میں کسی بھی قسم کی امتحانی بدعنوانی کو روکنے کیلئے اقدام کیا گیا تھا لیکن کرناٹک کے کیس میں ایسی کوئی منطق نہیں بتائی گئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حجاب کی ایجوکیشن بورڈ نے تمام عام مقامات پر اجازت دی ہے تو پھر کیا جواز بنتا ہیکہ حجاب کو کلاس روم میں ممنوع قرار دیا جائے۔ دھون نے یہ بھی کہا کہ سرکاری حکمنامہ میں حجاب کے خلاف کوئی بات نہیں ہے اور ایسا نہیں کہ اس سے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور یہ بھی نہیں کہ دستور میں حجاب لگانے کی اجازت نہیں ہے۔